لتحمل أخف الضررين دفعا لأعظمهما‘‘ (فتح الباري، طبع هند: 3/232) [1]
اسی مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے سامنے حقیقت کھول دی، ظالم کو مغالطہ میں رکھا، تعریض کا یہی مطلب ہے۔ ان طویل معروضات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ قطعاً نہیں بولا، البتہ ایسی گفتگو ضرور فرمائی، جس سے مخالف اور دین کے دشمنوں کو دھوکہ لگ سکے، اور یہ کچھ جرم نہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((الْحَرْبُ خُدْعَةٌ)) [2](رواه مسلم عن جابر و أبي هريرة: 2/83)
’’لڑائی میں دھوکہ درست ہے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کے لیے سفر فرماتے، تو توریہ کرتے۔ یعنی اصل مقام کا نام نہ لیتے، بلکہ تذکرہ تعریض اور توریہ کے طور پر فرماتے۔
’’ما سافر رسول اللّٰه إلا وريٰ‘‘ [3] أو كما قال
تعبیر کے لیے کذب کیوں؟
اس وضاحت کے بعد کہ ابراہیم علیہ السلام سے کذب کا ظہور نہیں ہوا، اسے کذب سے تعبیر کیوں کیا گیا؟ یہ تذکرہ حدیث شریف میں دو مقام پر آیا ہے۔ شفاعت کی حدیث میں، جب لوگ قیامت کے دن شفاعت کے لیے انبیاء علیہم السلام کے پاس پھرتے پھراتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام معذرت کے طور پر فرمائیں گے:
’’إني قد كذبت ثلاث كذبات فذكر‘‘[4](الترمذي عن أبي هريرة وقال: حسن صحيح: 4/297)
|