گوئیاں ہوں یا سیاسی مصالح، حسب مرتبہ حجت ہوں گی، ان کا ماننا فرض ہو گا۔ وہ ’’مثل القرآن‘‘ ہیں اور ’’مع القرآن‘‘۔
﴿ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ﴾ [1] اور ﴿ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ﴾ [2] کو انکار حدیث کے لیے بہانہ اور آڑ نہیں بنایا جائے گا، بلکہ اسے قرآن کی زبان اور عرب کے محاورات کی روشنی میں سمجھا جائے گا۔ بلقیس کی حکومت کے متعلق ہدہد کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملکہ سبا کے پاس ہر چیز ہے: ﴿ إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ﴾ (النمل: 23) حالانکہ سلیمان علیہ السلام کی ساری حکومت اس ﴿ كُلِّ شَيْءٍ ﴾ سے خارج ہے۔ نہ حاضرین نے اعتراض کیا، نہ حضرت کو جھوٹ کا شبہ ہوا۔
پیغمبر کا استقلال:
ہمارے نزدیک جو ایسی احادیث کی حجیت میں ایچ پیچ کرے، وہ منکر حدیث ہے، اسے چھپانے کے لیے وہ کتنی ہوش مندی سے کام کیوں نہ لے۔ پیغمبر کو ایک مستقل حیثیت حاصل ہے اور اس کے مزاج کی ساخت میں ایک معیار ودیعت فرمایا گیا ہے، جس کی موجودگی میں جو بھی وہ کہے گا، وہ کبھی منشاءِ الٰہی کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کا یہ بیان عین قرآن ہے۔ اس آیت ﴿تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴾ اور آیت ﴿ مَّا فَرَّطْنَا﴾ کے مطابق اگر یہ احادیث شرائطِ صحت کو پورا کر سکیں، تو یہ قرآن کی صحیح تفسیر ہو گی اور ان سے قرآن کے مقاصد کی تکمیل ہو گی۔
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م 790ھ) کا خیال ہے کہ احادیث قرآن کی تفسیر ہیں اور تشریح۔ امام
|