بچارے اہلِ حدیث جو متاخرینِ فقہاء اور قاضی عیسیٰ بن ابان سے شاکی تھے، وہ آپ کی اس تنقیدی جودوسخا سے کیسے مطمئن ہوتے؟
آپ حضرات کی یہ ساری کوششیں اس لیے تھیں کہ آپ ظن سے محفوظ رہ سکیں، لیکن جہاں آپ اس وقت تشریف فرما ہیں وہاں ظن ہی ظن ہے۔ درایت ظنی، قیاس ظنی، علت ظنی، اس کا طردو عکس ظنی، مزاج شناسی ظنِ محض اور ہیرے کی جوت ظنی۔ محدثین کا بااصول فن آپ کی نظر میں اس لیے نہ جچ سکا کہ یہ انسانی کوشش ہے جو اپنی فطری حدود سے آگے نہیں جا سکتی، لیکن ’’درایت‘‘ اور ’’دین کا سسٹم‘‘ اور ’’شریعت کا مزاج‘‘ قیاس اور اس کی علل، یہ بھی تو انسانی مساعی کے نتائج ہوں گے۔ باقاعدہ ظن سے بھاگ کر آپ ذوقی اور بے قاعدہ ظن کے زیرِ سایہ آ گئے اور مسلک اعتدال کی تلاش میں بے اعتدالی کا شکار ہو گئے۔ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ!
احادیث میں یقین اور ظن:
ائمہ حدیث کی نظر میں قرآن عزیز اور متواتر احادیث سے یقین حاصل ہوتا ہے۔ متواتر احادیث کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ تواتر لفظی، تواتر معنوی، تواتر عملی کی تعداد سنت کے دفاتر میں کثرت سے موجود ہے، لیکن دین کے تمام شعبوں میں تواتر نہیں پایا جاتا، بلکہ اس کے لیے آحاد ہی کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ آحاد سے جو علم حاصل ہوتا ہے، اسے اصطلاحاً ظن کہا جاتا ہے۔ ظن زندگی کے تمام شعبوں میں پایا جاتا ہے۔ دینی اعمال کا فائدہ ظنی ہے۔ دنیا کے کاروبار اور ان کے نتائج ظنی ہیں۔ لغت ظنی ہے۔ الفاظ کی دلالت ظنی ہے۔ کعبہ کی سمت کا فیصلہ بعض اوقات ظن سے کیا جاتا ہے۔ جس ظن پر پوری زندگی کا انحصار ہے، اسے نہ شرع نظر انداز کر سکتی ہے نہ عرف اور رواج۔ قرآن مجید نے اس ظن کو مستند سمجھا اور اس پر احکام مرتب کیے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک ظنی اطلاع پر مصر سے ہجرت کی۔ ایک لڑکی کی اطلاع پر مصر میں اسی جگہ پہنچے جہاں مدت تک قیام فرمایا۔ واپسی پر طور کا نظارہ ایک ظن کی بنا پر دیکھا اور نبوت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض امید کی بنا پر فلسطین میں قیام فرمایا اور ایسے ہی گمان کے پیشِ نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مع حضرت ہاجرہ علیہا السلام حجاز کے ویرانہ میں اقامت کا حکم دیا۔ حضرت
|