رخ عوام کی طرف تھا، اب براہ راست سلاطین کو مخاطب فرمایا۔ امراء کو خطوط بھیجے۔ ان تمام خطوط کی حیثیت خبر واحد کی تھی۔ معلوم نہیں ہمارے اہل قرآن دوست ان تبلیغی کوششوں کو دینی سمجھتے ہیں یا توسیع حکومت کا ایک ذریعہ؟ بہرحال معاملہ کی صورت خبر واحد ہی کی ہے، جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مستند سمجھ کر بھیجا اور مخالفین نبوت نے اسے صحیح سمجھا اور کسی ظن یا شبہ کی وجہ سے اس کی تکذیب نہیں کی۔
(1) معاذ بن جبل، یمن میں تبلیغ و تعلیم کے لیے۔
(2) عتاب بن اسید، مکہ میں۔
(3) دحیہ کلبی، قیصر ہرقل کے پاس۔
(4) حذیفہ سہمی، کسریٰ کے پاس۔
(5) عمرو بن امیہ ضمری، نجاشیِ حبشہ کے پاس۔
(6) عثمان بن ابی العاص، طائف میں۔
(7) حاطب بن ابی بلتعہ، مقوقس کے پاس سکندریہ میں۔
(8) شجاع بن وہیب اسدی، دمشق میں۔
اگر خبر واحد اور ظن کی بحث کو وہی اہمیت دی جاتی، جو آج کل فن روایت کے خلاف دی جا رہی ہے، تو امراءِ ممالک کہہ سکتے تھے کہ خطوط ظنی ہیں۔ آپ حضرات اپنی ڈاک پر بھی ایسے شبہات وارد نہیں فرماتے، جو حدیث کے متعلق پیدا کرنے شروع کر دیتے ہیں!
تحصیل صدقات کا نظام:
یہ نظام بھی بالکل دینی ہے۔ عموماً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس خدمت کے لیے مختلف بستیوں میں ایک ایک دو دو آدمی بھیجا کرتے تھے۔ نہ ہی اس منطقی ظن کا خیال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور نہ ہی اصحاب صدقات نے یہ حجت پیدا کی کہ یہ پیغام ظنی ہے، ورنہ بےحد مشکل ہوتی اور سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔
مندرجہ ذیل حضرات کو تحصیل صدقات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا:
(1) مالک بن نویرہ، (2) زبرقان بن بدر، (3) زید بن حارثہ، (4) عمرو بن عاص، (5) عمرو بن حزم، (6) اسامہ بن زید، (7) عبدالرحمٰن بن عوف، (8) ابو عبیدہ بن جراح وغیرہم رضی اللہ عنہم۔
|