Maktaba Wahhabi

617 - 676
’’کوچ کا اعلان ہوتے ہی قضاءِ حاجت کے لیے لشکر سے باہر چلی گئی، فراغت کے بعد میں اپنے ڈیرے کے پاس آ گئی۔ میں نے گلا ٹٹولا تو ہار نہیں تھا، میں اسی وقت واپس گئی اور اس کی تلاش ہی نے مجھے وہاں باہر روکے رکھا۔‘‘ بالکل فطری اور طبعی انداز ہے۔ جانے کی اجازت سفر کی نفسیات کے خلاف ہے۔ مدینہ واپسی پر ام مسطح کے ساتھ جانا وہ بھی اتفاق ہے، نہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے بلایا، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتھ بھیجا، گو بیماری کی وجہ سے ایسا ہونا اتفاق ہو گیا۔ پنجم: قرینہ نمبر (5) سے معلوم ہوتا ہے مضمون نگار پر دورے کی کیفیت جاری ہے۔ جب حدیث میں موجود ہے: ’’أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُعَرِّسِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ ‘‘ ’’ہم ظہر کے وقت لشکر میں پہنچے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ ‘‘ ’’رات کو کوچ ہوا۔‘‘ دوپہر کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لشکر میں پہنچ گئی۔ مغرب کے وقت تلاش، عشاء کی نماز، رات خیمہ میں آپ کے ساتھ کھانا کھانا، جو اس کی خرابی کا اثر معلوم ہوتا ہے، کوچ آخر شب، نزول دوپہر، یہ احتمالات سب بے کار اور بے محل ہیں۔ ششم: حدیثِ افک میں رواۃ نے غزوہ کا ذکر کیا ہے۔ آپ اپنے معتوب امام المغازی محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کا طریق ملاحظہ فرمائیں: ’’فلما كان غزوة بني المصطلق أقرع بين نسائه كما كان يصنع فخرج سهمي‘‘ (روض الأنف: 2/220) ’’غزوہ بنی المصطلق میں قرعہ ڈالا گیا، تو میرا نام نکل آیا۔‘‘ عمادی صاحب کی عقل پر رحم آتا ہے۔ اپنی کم علمی کا جرم بے چارے حدیث کے سر تھوپ
Flag Counter