مرسل کے متعلق اصطلاحی بحث:
مرسل کے متعلق یہ طبعی افتاد آج بھی ہماری زندگی کا جزو ہے۔ شرعی حجیت سے قطع نظر اظہار واقعات میں ہم واقعات کے ان ذرائع کا اظہار ضروری نہیں سمجھتے، جن سے ہمیں ان واقعات کا علم ہوا۔ لیکن اگر ان واقعات میں شبہ پیدا ہو، تو ان ذرائع کے چھان پھٹک کا احساس ہوتا ہے اور تحقیق ہی کی جاتی ہے۔ بسا اوقات ایسی روایات پر بے اعتمادی بھی ہو جاتی ہے۔ بعض ایسے آدمی سامنے آ جاتے ہیں، جن کی نقل میں ضعف اور طریقِ وصول میں اشتباہ یقین کی حد تک پہنچ جاتا ہے، فن حدیث میں بھی ارسال کی قریب قریب یہی صورت ہے۔ جب تک صداقت طبائع پر غالب رہی، وسائط اور ذرائع کے علم کے باوجود بحث و تنقید کی نوبت نہ آئی اور جب طبائع کا رجحان سچائی سے ہٹتا نظر آیا، رواۃ اور ذرائع بحث و نظر کی کسوٹی پر پرکھے جانے لگے۔ اس لیے ارسال ایک اضافی عیب ہے جسے اسباب و قرائن سے نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے اور بوقت ضرورت اس پر مواخذہ بھی ہو سکتا ہے۔ محدثین نے اس پر اسی انداز سے بحث کی۔ خود امام شافعی رحمہ اللہ جنہیں مرسل کی حجیت پر نقض کا شرف حاصل ہے، مرسل کو بالکلیہ رد نہیں فرماتے اور ائمہ حدیث جو اس فن کے مختلف گوشوں پر ناقدانہ نظر رکھنے کے عادی ہیں، وہ بھی مرسل کو علی الاطلاق رد نہیں فرماتے:
’’قال الشافعي: يقبل إن اعتضد بمجيئه من وجه آخر، يباين الطريق الأولي، مسندا كان أو مرسلا، ليترجح احتمال كون المحذوف ثقة في نفس الأمر‘‘[1](نزهة النظر، ص: 50)
’’امام شافعی فرماتے ہیں: اگر مرسل کی تائید کسی دوسرے طریق سے ہو جائے، قطع نظر کہ وہ طریق مسند ہے یا مرسل، تو مرسل کو قبول کیا جائے گا۔ غرض صرف یہ ہے کہ محذوف راوی کی فی نفسہٖ ثقاہت کا یقین ہو جائے۔‘‘
جمہور محدثین کا مسلک اور بھی محتاط ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر محدث ثقات سے ارسال کا عادی ہو، تو بھی اس کی روایت میں توقف کیا جائے گا، کیونکہ صرف یہ عادت محذوف راوی کی ثقاہت کی دلیل نہیں ہو سکتی، بلکہ ضروری ہے کہ غیر مذکور راوی کے متعلق صحیح علم ہو اور اس کی ثقاہت
|