Maktaba Wahhabi

513 - 676
کرے، اس میں کوئی حرج نہ تھا، لیکن بعض اوقات تابعی تابعی سے نقل کرتا ہے اور یہ سلسلہ استقراء کے بعد چھ اور سات واسطوں تک پہنچا۔ كما ذكره الحافظ ابن حجر رحمه اللّٰه اس لیے محذوف کے متعلق اس زمانہ میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ وہ صحابی ہے یا تابعی؟ اور پھر وہ تابعی ثقہ ہے یا ضعیف؟ اس لیے ائمہ حدیث میں بناء علی الدلیل امام شافعی کی رائے کو ترجیح دی گئی۔ كما ذكره مسلم في مقدمة صحيحة: ’’والمرسل من الروايات في أصل قولنا و قول أهل العلم بالأخبار ليس بجحة‘‘ انتهي [1] ’’مرسل کے متعلق ہمارا اور اہل علم کا قول ہے کہ وہ حجت نہیں۔‘‘ ایک متحرک فن جس میں تقلید آمیز جمود نہ ہو، ایسے اختلافات سے خالی نہیں ہو سکتا، بلکہ ذخیرہ احادیث کی حفاظت ہی کے لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ نے مرسل کو قبول کیا اور اسی ذخیرہ کی حفاظت کے لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا اور مسترد کر دیا۔ والبصير لا يريب فيه [2] زمانہ صحابہ کا قرب اور دفورِ صدق اس کے قبول کا داعی تھا، عوام کی غیر محتاط روش سے متاثر ہو کر اسے مسترد کرنا ضروری سمجھا گیا۔ جمود پسند حضرات نے اسے حنفی اور شافعی اختلاف کی صورت دے کر ایک نزاعی مسئلہ بنا دیا، حالانکہ یہ اختلاف احوال و ظروف کا تقاضا ہے، جس سے کوئی متحرک فن خالی نہیں۔ جو خطرات مرسل کے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ کے زمانہ میں محسوس کیے گئے، اگر امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سامنے اس وضاحت سے آ جاتے، تو وہ یقیناً مرسل کی حجیت کا انکار فرماتے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی احتیاط پسند طبیعت کبھی اسے قبول نہ کرتی اور امام شافعی رحمہ اللہ اگر صدق و صفا کے دور کو پا لیتے، جس کے کافی اثرات حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے تھے، تو امام شافعی رحمہ اللہ اس کی حجیت پر بحث نہ فرماتے۔ احوال کی اس تبدیلی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا جہالت ہے کہ ’’ارسال بھی تدلیس ہی کی ایک صورت ہے۔‘‘
Flag Counter