Maktaba Wahhabi

594 - 676
اوقاتِ فرضیت میں اختلاف ہے۔ کیا اس اختلاف کی بدولت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مسعود اور باقی حوادث کا کلی طور پر انکار کر دیا جائے؟ ممکن ہے اہل قرآن کے عقلاء کو اس پر اصرار ہو، دنیا کے دانشمند تو یہ اصل قبول نہیں کر سکتے۔ اس لیے تمنا صاحب کی بحث کا یہ حصہ لا حاصل اور بے سود ہے۔ یہ اختلافات نہ ہوں، تو علمی مباحث اور اہل علم کی محنت اور کاوش کی ضرورت ہی نہ رہے۔ جہاں کسی معاملہ میں جزوی اختلاف ہوا، واقعہ کا انکار کر دیا اور چھٹی ہوئی! ایسے بے سود مباحث کو بے ضرورت طول دینے میں، غالباً تمنا صاحب کو مرزا غلام احمد صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ مرزا صاحب تکرار سے اذہان میں تشویش پیدا کر دیتے تھے، یہی عمادی صاحب کا کام ہے! عمادی صاحب نے ’’طلوع اسلام‘‘ میں ایک دفعہ امام زہری کے متعلق لکھا تھا کہ یہ عجمی ہیں اور موضوع اور غلط روایات کرنا ان کی عادت ہے۔ اس کا جواب اسی وقت پوری تفصیل سے ’’الاعتصام‘‘ میں دے دیا گیا تھا۔ (ملاحظہ ہو: الاعتصام: 6 اپریل 1951ء) ’’حدیث افک‘‘ میں کوفے اور بصرے اور قاتلانِ عثمان کا تذکرہ تاریخی بدحواسی ہے اور ایک جذباتی انداز، چونکہ حدیث کی وضع و تخلیق کے معاملہ میں شیعہ حضرات کافی بدنام ہیں اور ان کے ہاں تقیہ کی بے اعتدالی نے جھوٹ کے لیے شرعاً بھی کچھ وجہ جواز پیدا کر دی ہے، عمادی صاحب افک پر بحث فرماتے ہوئے ان جذبات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، ورنہ ’’حدیث افک‘‘ اتنی اسانید سے مروی ہے کہ وہاں کوفے یا بصرے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہاں مدنی اور شامی حضرات بھی کافی ہیں۔ حدیثِ افک اور امام زہری رحمہ اللہ: عمادی صاحب نے مضمون کے آغاز میں ایک عجیب ڈینگ ماری ہے۔ جس سے غرض یہ اثر دینا ہے کہ عمادی صاحب نے ’’حدیثِ افک‘‘ کی ساری اسانید پر عمیق نظر کے بعد یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے، حالانکہ اس کی حیثیت ایک تُک اور ڈینگ سے زیادہ نہیں۔ محترم عمادی صاحب فنِ حدیث سے ناواقف ہیں۔ کتب رجال کے متعلق ان کا ذوق ائمہ سنت اور اہل فن سے بالکل مختلف ہے۔ عمادی صاحب فرماتے ہیں:
Flag Counter