تک پہنچ جائے، اس کے خلاف کوئی محدث ہو یا کوئی مجتہد، مجدد ہو یا فقیہ، اس کی بات متروک ہو گی۔
اسی طرح کوئی مرکز ملت ہو یا کوئی خود ساختہ قرآنی معاشرہ یا قرآنی نظام، اس کی کوئی قیمت نہیں ہو گی۔ اس دنیا کا کوئی علم علمِ نبوی سے متعارض اور متصادم نہیں ہو سکتا، بلکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد قرآن کے کسی اجمال کی تفصیل ہو یا کسی حکم کی تشریح اور وضاحت ہو، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد قرآن کے اجمال میں قاضی ناطق ہو گا۔ كما قال الأوزاعي [1]
پہلا دور:
اسی اصل کی بنا پر زمانہ نبوت ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی طرف صحابہ رضی اللہ عنہم نے توجہ مبذول فرمائی۔ کاروباری لوگ نوبت، بنوبت ان دروس و اسباق میں شامل ہوتے، دروس کے حلقوں میں بیٹھتے، احادیث لکھتے، املاء کی مجالس منعقد ہوتیں، احادیث کا سماع اور ضبط ہوتا۔ (مجمع الزوائد للحافظ الهيثمي: 1/379)
فارغ البال حضرات پورا وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزار دیتے۔ احادیث لکھتے، یاد کرتے۔ [2] عبداللہ بن عمرو بن عاص کی کتاب ’’صادقہ‘‘ اسی دور کی کتاب ہے، جو پوری کی پوری موطا اور الجامع الصحيح للإمام محمد بن إسماعيل البخاري میں آ گئی ہے۔ [3]
|