ہے، مگر معشر اہل حدیث!
تمہیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
اصول دیانت کے اس استحکام کے بعد جس قدر وسعت اور ظروف و احوال کی رعایت اس مسلک میں ہے، دوسری جگہ کافی حد تک ناپید ہے۔ اس لیے مجھے عرض کرنے کی اجازت دیجئے کہ مسلک اہل حدیث اسلامی تعلیمات کی صحیح ترین تعبیر ہے اور تحریک اہل حدیث کے داعیوں نے ہر دور میں جس احتیاط سے اپنے فرائض کو سرانجام دیا ہے، دشمن بھی اسے سراہنے پر مجبور ہیں۔ فتوؤں میں جس قدر اعتدال ائمہ حدیث نے قائم رکھا، اس کی مثال کسی دوسری جگہ ملنا مشکل ہے۔ یہی وہ خوبیاں ہیں، جن کی بنا پر میں مسلک اہل حدیث کو ترجیح دیتا ہوں اور پورے ادب کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے اہل حدیث احباب خصوصاً نوجوان علماء سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے موقف کوپہچانیں، اپنے ماضی کی تاریخ اور اپنے بزرگوں کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔
آج کی ضرورت:
حزبی پابندیوں سے دنیا تنگ آ چکی ہے۔ اسلامی وسعتیں آپ کی منتظر ہیں۔ جمود و تقلید کی ظلمتیں آپ سے روشنی کی آرزو مند ہیں۔ یعنی آج آپ کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، جتنی کہ چند سال پہلے آپ کی ضرورت تھی۔ اسی سنت کی شمع کو ہاتھ میں لے کر ایک اجتماعی تحریک کی حیثیت سے کام کیجئے، نئی اور پرانی تحریکات میں اصول کے تقاضوں کے مطابق تعاون کیجئے، مگر خدا کے لیے گداگری چھوڑ دیجیے۔ احساس کمتری اس ماحول میں پھٹکنے نہ پائے۔ پہلے اپنے مسلک کو سمجھیے، اپنے ماضی اور اسلاف کے مساعی اور کارناموں پر غور کیجئے اور مخلص رفقاء کو ہمراہ لے کر پابرکاب ہو جائیں، اللہ تعالیٰ آپ کا حامی اور ناصر ہے۔
تحریک اہل حدیث کے داعیوں نے صرف فقہی گروہ بندیوں ہی میں اعتدال نہیں پیدا کیا اور نہ صرف اعتزال و تجہم اور جبر و قدر کی پر پیچ زلفوں کو درست کیا، بلکہ اپنے وقت کی سیاسیات پر کڑی نگرانی کی، سیاسین سے اگر لڑنے کا موقع آیا، تو پوری جرأت اور بے جگری سے لڑے اور جب وہ سیدھے ہو گئے، تو پوری دیانت داری سے ان کے ساتھ تعاون کیا، فجزاهم اللّٰه عنا و عن المسلمين أحسن الجزاء۔ اور اس ساری کشمکش میں کوئی ذاتی مقصد پیش نظر نہیں رہا۔
|