Maktaba Wahhabi

631 - 676
اور امت کے مخلص خدام کے خلاف بدزبانی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اکابر امت پر تہمت تراشی کی، جو اپنوں اور بیگانوں کی نظروں میں مضحکہ ہے۔ ﴿فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾ (النساء: 78) آپ نے اتنا نہ سوچا کہ منافقین اور مخالفین کی کذب بیانیوں اور بہتان تراشیوں سے تو اہل حق کی آبرو بڑھتی ہے، ان کے درجات بلند ہوتے ہیں، اعمال میں اضافہ ہوتا ہے، گناہ دھلتے ہیں۔ آپ حضرت کا یہ وطیرہ فکری پریشانیوں اور عقل و شعور کی تاریکیوں کی زندہ مثال ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عقل عطا فرمائے۔ علم تو محنت کی چیز ہے، اس کے لیے بھی کوشش فرمائیے! دوسرا شبہ: ان حضرات نے دوسرا شبہ یہ قرار دیا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کے بموجب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پرواہ نہیں کی۔ ان کو صفائی کا موقعہ نہیں دیا۔‘‘ وغير ذلك من الخرافات اس عقلمند نے اتنا نہیں سوچا کہ تہمت کے ظہور کے بعد اس کی نوعیت فوجداری کیس کی ہو جاتی ہے، جس کے لازماً جو مجرم ثابت ہو جائے، اسے سنگین سزا دینا واجب ہے۔ متہمہ بیمار ہے، آپ کی یہ خواہش ہے کہ مریضہ کو تفتیش میں رکھا جائے یا پھر بلا تحقیق تہمت لگانے والوں کو اسّی کوڑے لگا دیے جائیں! پھر فرما دیں گے حدیث موضوع ہے، بلا تحقیق سزا دے دی گئی۔ اتنا بڑا سنگین فوجداری کیس ایک ماہ میں مکمل ہو گیا، ملزم کو صفائی کی ضرورت نہیں پڑی اور اسے باعزت بری کر دیا گیا اور عدالت پر کنبہ پروری، خویش نوازی کا الزام دشمن بھی نہ دے سکے۔ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا اور مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کو حد قذف لگ کر معاملہ پوری طرح صاف ہو گیا۔ [1] تم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مغل بادشاہ سمجھتے ہو یا کوئی راجہ۔ رانی یا شہزادی کے تیور بدلے
Flag Counter