فقہاء رحمہم اللہ نے ’’كتاب القاضي إلي القاضي‘‘[1]کے متعلق عجیب سی شرائط عائد فرمائی تھیں۔ امام رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کو اس سادگی سے ذکر فرمایا کہ ایک طرف اہل قرآن کا شبہ اور مغالطہ درست ہو گیا، دوسری طرف کتابت کی حجیت کے متعلق جو مشکلات فقہاء کے پیش نظر ہیں، ان میں اعتدال کی راہ ظاہر فرما دی اور ظاہر فرمایا کہ ان شبہات کا ازالہ قرائن سے ہو سکتا ہے۔ یہ نزاع قرآن سے حل ہو جاتی ہے، اس کے ساتھ ہی کتابتِ حدیث کے جواز کے متعلق ایک مستند اور صحیح ذخیرہ جمع فرما کر اس بحث کو ہمیشہ کے لیے ختم فرما دیا۔
تحمل حدیث:
خود ائمہ حدیث میں یہ مسئلہ ما بہ النزاع تھا کہ علم کے تحمل اور آغاز کے لیے کون سا وقت زیادہ صحیح اور مناسب ہے؟ امام رحمہ اللہ نے اس کے متعلق دو حدیثیں ذکر فرمائی ہیں:
(1) ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت، جس میں انہوں نے منیٰ کے میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شرکت کی اور اپنی سواری کو صف کے آگے چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس میں وہ ذکر فرماتے ہیں: ’’وقد ناهزت الاحتلام‘‘ میں قریب البلوغت تھا۔ [2]
(2) دوسری روایت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی ہے۔ انہوں نے پانچ سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے ان کے منہ پر پانی ڈالا۔ [3]
مقصد یہ ہے کہ جب طالب علم استاد کی بات کو جانتا اور سمجھتا ہو، وہی عمر درس و تعلیم کے لیے درست ہے۔ اصل چیز فہم وبصیرت ہے، سالوں کا شمار اصل مقصود نہیں۔ [4]
|