مقدمہ صحیح مسلم میں مرقوم ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتوے کا ایک ذخیرہ پیش کیا گیا تو انہوں نے اس کا کافی حصہ کاٹ دیا اور فرمایا:
’’مَا قَضٰي بِهَا عَلي إِلَّا أَن يكُوْن قَدْ ضل‘‘ [1]
یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے نہیں ہیں اور اگر ہوں تو وہ غلط ہیں۔
یہ فتاویٰ حجت بھی نہ تھے اور محفوظ بھی نہ تھے، لیکن حدیث کی نقل و وضاحت کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنہم میں تشدد و احتیاط کافی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ہمارے اہل قرآن کی محفلوں میں ان کا تذکرہ بحیثیت منکر حدیث آتا ہے، یہ تو غلط ہے، البتہ بلحاظِ نقادِ حدیث یا امام جرح و تعدیل یہ تذکرہ بالکل درست ہے۔ بعض وقت یہ تشدد اس قدر زیادہ ہو جاتا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے برملا فرمایا:
’’لَا تَكُنْ عَذَابًا عَليٰ أَصْحَابِ مُحَمَّد صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [2]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے تثبت کیا ہے۔ [3]
مقام غور یہ ہے کہ بے ضرورت چیزوں کی حفاظت کون کرتا ہے؟ اگر حدیث حجت نہ تھی، تو اس کے لیے یہ احتیاط کیوں تھی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود اہل زبان تھے، مقاصد کلام کو خوب سمجھتے تھے اور حدیث ’’ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ‘‘[4]بھی پیش نظر تھی، اس لیے حفظ الفاظ کی پابندی اور روایت بالمعنی میں پوری احتیاط سے کام لیا گیا۔ ﴿أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ﴾ (البقرۃ: 157)
دوم:
بلحاظِ نقل و درایت حدیث کا مقام قرآن کے بعد ہے۔ ائمہ اسلام نے بلحاظ ثبوت اسے
|