Maktaba Wahhabi

615 - 676
شریف خاندان میں نہیں ہوا۔ باہم بے اعتمادی کی وجہ سے عورتیں آنے جانے کی اجازت چاہتی ہوں گی: مولانا! میں بیت الخلاء جا رہی ہوں، گھبرائیے گا نہیں۔ واپسی پر بھی اطلاع دیتی ہوں گی۔ نوٹ فرما لیجیے گا، میں آ گئی! شریف گھرانوں میں یومیہ معمولات کا نہ احتساب ہوتا ہے، نہ اذن اور اطلاعات کی ضرورت! قرینہ نمبر (2) کی شقوں پر غور کرتے وقت مجھے ہنسی بھی آئی اور ندامت بھی ہوئی، اس لیے محسوس ہوا عمادی صاحب اس معاملہ میں معذور ہیں۔ بھول انسانی فطرت ہے: بھول کے لیے کوئی قاعدہ نہیں، انسان منوں بوجھ بھول سکتا ہے۔ حدیث پر تو آپ کو یقین نہیں، قرآن پر غور کریں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے شاگرد کے ساتھ ایک نیک دل آدمی کی ملاقات کے لیے جا رہے تھے، نشان کے طور پر ایک مچھلی ہمراہ لے جا رہے تھے۔ آپ حضرات تو اسے مردہ نہیں سمجھتے ہوں گے، اس لیے لازماً برتن، پانی مچھلی کا بوجھ پندرہ بیس سیر سے کم نہیں ہو گا۔ قرآن فرماتا ہے: ﴿أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا﴾ (الکہف: 63) ’’حضرت! ہم جب پتھر کے پاس ٹھہرے، میں شیطانی وسوسہ سے مچھلی بھول گیا اور وہ عجیب انداز سے پانی میں کود گئی۔‘‘ جس قدر احتمال آپ نے محمل اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھول کے پیدا کیے ہیں، وہ سب یہاں ذہن میں لے آئیے اور پھر غور کیجیے کہ عجمی قرآن پر بھی ہاتھ صاف نہیں کر گئے؟ حدیث اور قرآن دونوں ہی سازش کا تختہ مشق تو نہیں بنے؟ ائمہ تاریخ کا خیال ہے کہ قراء سبعہ سے عرب صرف دو ہی تھے: ’’وليس في هؤلاء السبعة من العرب إلا ابن عامر و أبو عمرو‘‘ (الجواهر المضيئة: 2/423) عمادی صاحب کی نمبر (2) کی شقیں انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ ادارہ ’’طلوع اسلام‘‘ میں شاید
Flag Counter