کہ ائمہ حدیث نے فارسی حکومت کے بقیۃ السیف کے ساتھ مل کر اسلام کی تخریب کے لیے سازش کی اور حدیث کے یہ طویل و عریض دفاتر، رجال کا یہ علمی اور تاریخی ذخیرہ، اصول حدیث کے عقلی اور لغوی قواعد، یہ سب اس شکست کا نتیجہ ہیں جو فارسی حکومت کے افراد اور علماء کی سازش سے وجود میں آئی اور اسی سے اسلام میں تخریب کی راہ پیدا ہوئی۔ چند سال سے اس تہمت کو بے حد ہوا دی جا رہی ہے۔ فتح فارس کی وجہ سے آج کا بے خبر ذہن اسے قبول بھی کر رہا ہے۔
میں اس پر ذرا تفصیل سے تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس پوری داستان کو محض افسانہ اور افترا سمجھتا ہوں۔ میری دانست میں یہ محض وہم ہے۔ اس کے لیے کوئی دلیل نہیں، بلکہ جو حضرات اس سازش کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، وہ خود کسی کی سازش کا شکار ہیں۔
سازش کے اسباب:
آج کے جمہوری دور میں حکومت پورے ملک کی ہوتی ہے۔ انتخاب کے مروجہ طریقوں میں یہ اساسی طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ اربابِ حکومت پورے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں اور عوام کے ووٹ نے انہیں اقتدار بخشا ہے، اس لیے یہ عوام کی حکومت ہے۔ ایسی حکومت اگر برباد ہو جائے تو یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ اقتدار پورے ملک سے نکل کر اجنبی ہاتھوں چلا گیا۔ اس لیے ان حالات میں سازش کا امکان ہو سکتا ہے۔
آج سے تقریباً ایک صدی پہلے حکومت نہ انتخابی تھی، نہ جمہوری نمائندگی کی سند ان کو حاصل تھی۔ نہ وہ حکومتیں عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی تھیں، بلکہ اس وقت کی حکومتیں شخصی ہوتی تھیں یا زیادہ سے زیادہ کوئی قوم حاکم ہو جاتی، باقی لوگ محکوم ہوتے تھے۔ اقتدار میں عوام کی جواب دہی قطعاً ملحوظ نہیں رکھی جاتی تھی نہ ہی حکومت کسی آئین کی پابند ہوتی تھی۔ بادشاہ کی رائے اور بادشاہ کا قلم پورا آئین ہوتا تھا یا وہ لوگ جو بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملا کر حکومت کے منظور نظر ہو جائیں۔
ایسی حکومتوں کے ساتھ ہمدردی ذاتی ضرورتوں کی وجہ سے ہوتی تھی یا بادشاہ کے ذاتی اخلاق اور کریکٹر کی وجہ سے۔ اگر کوئی انقلاب ہو جائے تو انقلاب سے ملک متاثر تو ہوتا تھا، لیکن اس کی وجہ بادشاہ یا اس کے خاندان سے ہمدردی نہیں ہوتی تھی، بلکہ یہ تاثر آنے جانے والی حکومتوں کے ذاتی مقاصد کی وجہ سے ہوتا۔
|