کے اجتہادات کی حیثیت یہی ارشادات اور افعال ہی کی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور تقریر بھی حجت ہے۔ غرض احادیث کا تعلق دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہے، لیکن فنی طور پر حدیث کا لفظ صحابہ کے اقوال اور تابعین کے فتوؤں پر بھی بولا جانے لگا، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی علی الاطلاق حجت نہیں ہے۔
اسی طرح جب ایک ہی حدیث مختلف طرق سے بیان کی گئی، تو ہر طریق کو حدیث ہی کہا گیا، اور یہی سبب ہے کہ حدیث کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کو چھ لاکھ حدیث سے انتخاب فرمایا۔ [1] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق معلوم ہے کہ انہیں کئی لاکھ حدیث ضبط تھی۔ ان کی مسند میں قریباً پچاس ہزار حدیث موجود ہے۔ [2] یہ تعداد طرقِ حدیث اور موقوفات کے ملانے ہی سے بنتی ہے، ورنہ حدیث نبوی کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں۔
شبہ:
ایک سطحی نظر سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا جو حصہ تعلیم و تعلم سے متعلق ہے، وہ قریباً 23 سال ہے۔ اس مدت میں کوئی شخص اتنے لاکھ باتیں کیونکر کر سکتا ہے؟ حضرات روافض اور ہمارے نقاد اہل قرآن حضرات پر بھی یہی ذہنی کیفیت طاری ہے، اس لیے ان حضرات کی طرف سے بھی ایسے شبہات ظاہر فرمائے گئے، حالانکہ اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ مختلف طرق اور آثار کے ملنے کی وجہ سے یہ عدد لاکھوں تک پہنچ گیا۔
قال ابن الجوزي في صيد الخاطر: ”جريٰ بيني و بين أحد أصحاب الحديث كلام في قول الإمام أحمد: صح من الحديث عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم سبع مائة ألف حديث، فقلت له: إنما يعني به الطرق، فقال: لا، بل المتون، فقلت: هذا بعيد التصور “ (ص:201، أيضا: توجيه النظر، ص:4) [3]
’’بعض محدثین نے کہا کہ امام احمد کے قول سے مراد کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سات
|