غالباً اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کی پرکھ قرآن کے معیار پر ہو گی، اس لیے بہتر ہے کہ ایک بیچارے مدین ہی کی مصیبت نہ آئے، دس اور بیٹے بھی اس کے ساتھ ہوں۔ غالباً تاریخی واقعات میں حضرت خلیل کی یہ اولاد موجود ہے۔ اب قرآن کے معیار پر دلائل ہی سے ان کی موت آئے گی اور یہ بیچارے کاغذات میں اہل قرآن ججوں کی مسل پر مریں گے۔
اور ہم بھی دیکھیں گے کہ تماشا ہو گا
معذرت:
تمنا صاحب کا مضمون ازبس بے ربط اور لمبا تھا۔ مجھے امید نہ تھی اہل علم ایسی چیزوں پر توجہ دیں۔ ماہرین فن حدیث پر اس کا کوئی اثر بھی نہیں تھا۔ خطرہ تھا کہ عام طالب علم اور مغرب زدہ حضرات ان مغالطات سے متاثر ہوں، اس لیے میں نے متعدد اقساط میں اس پر لکھا۔ میری گزارشات کا غیر مربوط ہونا قدرتی تھا، کیونکہ یہ اسی مضمون کا تتبع تھا، تاہم میں نے بہت سمیٹنے کی کوشش کی اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے ائمہ حدیث اور خدام سنت کی طرف سے مدافعت کی۔وعنداللّٰه في ذلك الجزاء
اس قسم کے مضامین ’’الاعتصام‘‘ ایسے اسبوعی اخبار کی بجائے ایک ماہوار مجلّہ کے لیے زیادہ مناسب ہیں اور میں محسوس کرتا ہوں کہ جماعت کو ایک مجلّہ شہریہ (ماہانہ) کی ازبس ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی صاحب ہمت کو توفیق دے، تو یہ ایک وقت کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں اہل حدیث پریس کے بعد جماعت کا یہ اولین فرض ہے۔
ان طویل گزارشات میں مجھے اعتراف ہے کہ میرا لہجہ بعض جگہ سخت ہو گیا اور آج کل کے عرفی اور منافقانہ اعتدال سے الگ رہا ہوں۔ میں نے منکرین حدیث کی دیانت پر شبہ کیا اور میں اسے اپنا حق سمجھتا ہوں۔ تنقید ائمہ حدیث کی محبوب ترین ایجاد ہے اور اس کا بے خطر استعمال فن کی امانت ہے اور ہم خدامِ حدیث بحمداللہ تنقید سے نہیں گھبراتے، لیکن ائمہ حدیث اور خدامِ فن کی بے ادبی اور محض ظن و تخمین کی بنا پر تہمت تراشی اور الزام نہ فن کی خدمت ہے نہ علمی مشغلہ!
منکرین حدیث کے اکثر جہلاء اسے فخر سمجھتے ہیں اور قدماء اور اسلافِ امت پر کیچڑ اچھالنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ایسے حضرات کے جواب میں مناسب تلخی میرا حق ہے، جس میں نہ تو مجھے
|