Maktaba Wahhabi

523 - 676
لکھا گیا۔ عمادی صاحب کا عام طریق استدلال تو یہ ہوتا ہے کہ جہاں اختلاف ہوا، وہ اصل واقعہ ہی کا انکار فرما دیا کرتے ہیں، جیسے تحقیق رواۃ میں ان کی روش ہے۔ اچھا ہوتا کہ وہ مقام ایلہ ہی کا انکار فرما دیتے۔ امام زہری کے لیے کس قدر مشکل پیدا ہوتی، انہیں عمادی صاحب کے انکار کے بعد پیدا ہونے اور ٹھہرنے کے لیے کوئی جگہ ہی نہ ملتی، نہ روایت کا موقعہ ملتا اور نہ روایات کا یہ فتنہ بپا ہوتا، جو امام زہری نے بپا کر دیا، مگر ہم ممنون ہیں کہ عمادی صاحب نے یہاں یہ طریق اختیار نہیں فرمایا۔ وہ ایلہ بنت مدین کے وجود سے اس لیے انکار فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کا کوئی تیسرا بیٹا عمادی صاحب کے علم میں نہیں اور شاید عمادی صاحب سے یہ لغزش اپنی قرآن دانی کے زعم میں ہوئی ہے، کیونکہ قرآن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بوڑھا بیان فرماتا ہے۔ عمادی صاحب کا خیال ہے کہ بوڑھے میاں کے ہاں دو بیویوں سے دو بچے تو ہو گئے، مگر یہ تیسرے ’’مدین کہاں سے آ گئے؟‘‘ (یہ فقہ مقام ادب سے کس قدر گرا ہوا ہے!) ہم عمادی صاحب سے علمی تعاون کے طور پر عرض کرنا چاہتے ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہم عرض کریں گے کہ ’’مدین کہاں سے آ گئے؟‘‘ ملاحظہ ہو: ’’ذكر أولاد إبراهيم الخليل، أول من ولد له إسماعيل من هاجر القبطية المصرية، ثم ولد له إسحاق من سارة بنت عم الخليل، ثم تزوج بعدها قنطورا بنت يقطن الكنعانية فولدت له ستة: مدين و ذمران و سرج و يقشان و نشق ولم يسم السادس، ثم تزوج بعدها حجون أمين فولدت له خمسة: كيسان و سورج و أبهم ولطان و نافس، هكذا ذكره أبو القاسم السهيلي في كتابه التعريف والإعلام‘‘ (البداية لابن كثير: 1/175) ’’پہلے حضرت اسماعیل ہاجرہ قبطیہ سے پیدا ہوئے، پھر حضرت اسحاق سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے، پھر آپ نے قنطورا سے نکاح کیا، ان سے چھ بچے پیدا ہوئے، پھر حجون بنت امین سے عقد فرمایا، ان سے پانچ بچے پیدا ہوئے۔‘‘ حسب روایت سہیلی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چار بیویاں اور تیرہ بچے ہوئے، غالباً اس گزارش سے اتنا پتہ چل جائے گا کہ یہ تیسرے ’’مدین کہاں سے آئے؟‘‘
Flag Counter