نہیں آیا، ذہن بدل گئے، طرز زندگی بدل گیا، ماحول بدل گیا، ماحول کے تقاضے بدل گئے، یہ جرم البتہ قائم رہا کہ پیدائش عجم میں ہوئی تھی۔
سائل محترم فرمائیں! کیا ’’ایرانیت‘‘ کے لیے بے شعوری کا چند روزہ قیام کافی ہے؟ یا اس کے لیے کسی اور قانون کی ضرورت ہے؟ محدثین چار سال کا قیام وطن بدلنے کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ [1] آپ قانون دان ہیں، فرمائیے! وطنیت کے لیے کیا کیا شرائط ہیں؟ اگر وطنیت کے لیے پیدائش کافی ہے تو یقین فرمائیے آج دنیا میں کوئی عرب نہیں۔ موجودہ عرب دنیا میں اموی، عباسی، ہاشمی وغیرہ سب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں، جن کی پیدائش مشہور قول کے مطابق فلسطین میں ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود نینوا میں پیدا ہوئے، اس کے بعد عرب کی رہائش اختیار فرمائی۔ محدثین جو ایران میں پیدا ہوئے، عموماً ان حضرات نے بالآخر رہائش عرب ممالک میں اختیار فرمائی۔ اب بخاری اور ائمہ حدیث رحمۃ اللہ علیہم کو ایران بھیجنے کے لیے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو عرب بنانے کے لیے قانون بنائیے۔ اس کام کے لیے صرف قلم کی جنبش کافی نہ ہو گی۔
سائل محترم کے خیال کے مطابق تمام محدثین کو لاٹھی کے زور سے ایرانی بنایا گیا، تو کشمیر میں نہرو اور اس کے آباؤ اجداد کی وطنیت بھی صحیح ہو گی، کشمیر کا مسئلہ اور بھی لاینحل ہو جائے گا۔ خدا کے لیے عقل کے ناخن لیجیے اور یقین فرمائیے کہ ائمہ محدثین رحمۃ اللہ علیہم اکثر عرب ہیں، ان میں بہت کم عجمی ہیں اور آپ کا تاریخی سوال قطعی بے محل ہے۔
موطا امام مالک کی مرفوع حدیثیں صحیح بخاری میں موجود ہیں:
اصل سوال کی طرف توجہ سے پہلے مناسب ہے کہ موطأ کے متعلق مولانا کا شبہ دور ہو جائے۔ موطأ چونکہ بقول سائل محترم ایک عرب امام کی تصنیف ہے، اس کی احادیث سائل محترم کے رفقا قبول فرمائیں، تو بخاری کے متعلق بہت سے شبہات دور ہو جائیں گے، کیونکہ موطأ قریباً صحیح بخاری میں آ گیا ہے۔ کچھ آثارہ رہ جائیں گے، احادیث آ جائیں گی۔
موطأ صحاح ستہ میں داخل ہے:
یہ آپ کو کس نے کہا کہ موطأ صحاح میں شامل نہیں؟ آج کل اہلحدیث مدارس میں موطأ ہی
|