Maktaba Wahhabi

437 - 676
فارس کی فضیلت کی احادیث: سازش کے متعلق سائل محترم نے جو مبادی وضع فرمائے تھے، وہ تار تار ہو گئے اور ان کے متعلق اغلاط کی نشاندہی ہو چکی، اس کے بعد اصل سوال بے وزن ہو جاتا ہے۔ ’’يا أولي الأبصار‘‘ کے نام سے محترم ناگی صاحب نے جو اپیل شائع فرمائی، ’’أولي الأبصار‘‘ نے اپنا موقف واضح کر دیا۔ آخر میں مولانا نے اہل فارس کی فضیلت میں وارد شدہ احادیث پر گہرے رنج کا اظہار فرمایا ہے، حالانکہ احادیث میں یمن کی فضیلت آئی ہے، عراق کا تذکرہ آیا، نجد کے فضائل آئے۔ بعض اشخاص اور قبائل کے مناقب بھی آئے۔ [1] اگر فارس کے حق میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کلمہ خیر کہہ دیا، تو اس میں ناراضگی کی کون سی بات تھی؟ اور یہ حقیقت ہے کہ اہل فارس سے اللہ تعالیٰ نے دین کی بے حد خدمت لی ہے۔ واقعی ’’پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا معاملہ ہو گیا۔ جزاهم اللّٰه عنا و عن المسلمين خير الجزاء و خير ما يجزي عباده المخلصين۔ مولانا نے ارشاد فرمایا ہے کہ سوال کا جواب جذباتی نہ ہو۔ محترم نے خیال فرما لیا ہو گا کہ سوال کا تو کوئی حصہ جذباتی نہیں، مگر میں نے تو اسے بہت حد تک جذباتی پایا۔ تاہم میں نے کوشش کی ہے کہ سائل محترم کے حکم کی حسب امکان تعمیل کر سکوں۔ ﴿ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ ﴾ (یوسف: 53) مثبت طریق سے: میں چاہتا ہوں کہ اس پر ایجابی اور مثبت طریق سے بھی کچھ عرض کر دیا جائے۔ سائل کے خیال میں چونکہ سوال تاریخی ہے، اس لیے مناسب ہو گا کہ جواب بھی کسی مسلّمہ مورخ کی زبان سے ہو۔ سائل محترم اور ان کے رفقاء کے متعلق مجھے بدگمانی ہے کہ یہ حضرات جامد مقلد ہیں۔ ایک دوسرے سے جو سنتے ہیں، مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں۔ اس تقلید کا لازمی نتیجہ ہے کہ مخالف پر بے اعتمادی اور بد گمانی ہو جائے اور یہ انداز سارے منکرین حدیث میں مشترک ہے۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ سوال کا جواب کسی مسلّمہ مورخ کی زبان سے ہو، تاکہ بدگمانی کی گنجائش نہ رہے۔
Flag Counter