کا علم ہو سکے اور روایت پر اعتماد کیا جا سکے۔ ﴿فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ (یونس: 16) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی اعتماد کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر میں غلط بیانی اور غلط گوئی کا عادی ہوتا تو آج سے چالیس برس پہلے بھی غلط بیانی سے کام لیتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت قرآن میں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ڈھکی چھپی چیز نہیں، لیکن اس کا ذخیرہ زیادہ تر احادیث میں ہے۔ منکرینِ حدیث ممکن ہے اس ذخیرہ پر اعتماد نہ کریں، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت قرآن عزیز سے تلاش کی جائے، تاکہ ایک قرآن کا طالب علم سمجھ سکے کہ جس شخص کی سیرت اس طرح روشن ہے، آیا اس کا قول، فعل اور تقریر اور اجتہاد قابلِ اعتماد ہے یا نہیں؟
خلطِ مبحث سے بچنے کے لیے روایت اور رواۃ کا میں نے یہاں بالکل تذکرہ نہیں کیا، کیونکہ حجیت حدیث الگ بحث ہے اور طریقہ روایت اور رجالِ حدیث ایک الگ بحث۔ اگر راوی ضعیف ہے، اس کی روایت کے مشتبہ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگر راوی جھوٹا ہے تو اس کی روایت مسترد کر دی جائے گی لیکن حجیتِ حدیث پر ان عوارض کا کوئی اثر نہیں۔ ’’حدیث بلحاظِ روایت‘‘ کے موضوع پر کسی دوسری صحبت میں گزارشات کی جائیں گی۔ حجیتِ حدیث کے مسئلہ میں عام اہلِ قرآن نے سند اور رجال کی بحث کو جس انداز سے گھسیٹنے کی کوشش کی ہے، وہ دیانت داری پر مبنی نہیں ہے، وہ صرف خلطِ مبحث ہے۔
(1) ﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللّٰه وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ﴾ (البقرۃ: 285)
’’رسول اور تمام اہل ایمان نے پیغمبر کی وحی کی تصدیق کی۔ یہ سب لوگ اللہ اور رسول اور اس کی کتابوں اور فرشتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم اس کے رسولوں کی تفریق نہیں کرتے۔‘‘
اس آیت میں پیغمبر کو باقی تمام اہلِ ایمان کے ساتھ ایمان میں مساوی قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح عام لوگوں پر فرض ہے کہ پیغمبر کی وحی پر ایمان لائیں، پیغمبر پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنی وحی پر یقین کرے۔ اسی طرح خدا، رسول، ملائکہ اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہ آیت اس امر پر شاہد ہے کہ پیغمبر اس امتحان میں کامیاب ہے۔ اس لیے پیغمبر کے ارشادات پر بھی اسی
|