Maktaba Wahhabi

297 - 676
صدق کے قرائن: اگر آحاد کے متعلق صدق کے قرائن موجود ہوں، مثلاً: (1) اس کی سند صحیح ہو۔ (2) امت نے اسے قبول کیا ہو۔ (3) مصنف نے صحت کا التزام کیا ہو۔ (4) امت نے التزام کو درست تسلیم کیا ہو۔ (5) اہلِ علم نے ان کتب کی خدمت کی ہو، شرحیں لکھی ہوں، لغات کو حل کیا ہو، رجال کو منضبط کیا ہو، مقدمات و حواشی لکھے ہوں، غرض اعتماد کی نظر سے دیکھا ہو۔ (6) یا واحد عن واحد منقول ہو اور اس میں شرائطِ صحت پائی جائیں۔ (7) یا امت نے عملاً اسے قبول کر لیا ہو، رواۃ کی ثقاہت معلوم ہو۔ ان حالات میں اس سے بھی یقین حاصل ہو گا اور اس پر عمل بھی واجب ہو گا۔ علامہ آمدی نے خبر واحد کے متعلق بہت بسط سے لکھا ہے، لیکن اہل ظاہر اور اہل حدیث کے مسلک کا ذکر بہت اجمال سے فرمایا ہے۔ الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم، صواعق مرسله علي الجهمية والمعطلة میں دونوں مسلک تفصیل سے مرقوم ہیں۔ اسی سے اہل حدیث کا مسلک پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ ’’والقسم الثاني من الأخبار ما نقله الواحد من الواحد، فهٰذا إذا اتصل برواية العدول إلي رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم وجب العمل به، و وجب العلم بصحته أيضاً‘‘ (الإحكام: 1/108) ’’جب ایک راوی دوسرے سے اتصال کے ساتھ نقل کرے اور یہ عادل ہوں تو اس پر عمل واجب ہے اور اس کی صحت پر یقین بھی ضروری ہو گا۔‘‘ دوسرے مقام پر مرقوم ہے: ’’فصح بهٰذا إجماع الأمة كلها علي قبول خبر الواحد الثقة عن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ (الإحكام: 1/114) ’’خبرِ واحد صحیح کے قبول پر پوری امت کا اجماع ہے۔‘‘ پھر (1/118) میں فرمایا: ’’وقد ثبت عن أبي حنيفة و مالك و الشافعي و أحمد و داؤد وجوب
Flag Counter