[1]مبسوطات میں پائی جاتی ہے۔ آحاد راویوں کی کوئی تعداد معین نہیں، متواتر کے علاوہ سب آحاد ہیں۔ اگر خبر واحد میں یقین کے قرائن موجود نہ ہوں یا ضعف کے قرائن پائے جائیں، ایسی خبر سے قطعاً علم حاصل نہیں ہو گا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ولا ريب أن مجرد خبر الواحد الذي لا دليل علي صدقهٖ لا يفيد العلم‘‘ (الرد علي المنطقيين، ص: 38)
’’خبر واحد میں اگر صدق کے قرائن موجود نہ ہوں تو اس سے علم حاصل نہیں ہو گا۔‘‘
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے کتب حدیث کے پانچ طبقات متعین فرمائے ہیں۔ آخر میں فرمایا ہے:
’’أما الطبقة الأولي والثانية فعليهما اعتماد المحدثين، وحوم حماهما مرتعهم مسرحهم۔۔۔ الخ‘‘
’’ائمہ حدیث کا اعتماد پہلے اور دوسرے طبقہ پر ہے۔ یہی ان کے اعتماد کا محوری نقطہ ہے۔ تیسرا طبقہ جس میں بیہقی، طحاوی، مصنف ابن ابی شیبہ اور طبرانی وغیرہ کو شمار کیا ہے، اس سے صرف ماہرینِ فن استفادہ کر سکتے ہیں، یہ عوام کے استعمال اور استفادہ کی چیز نہیں۔ باقی طبقات سے اہل بدعت استدلال کرتے ہیں، اہلِ حدیث ان پر اعتماد نہیں کرتے۔‘‘ (حجة اللّٰه : 1/108)
کیونکہ ان طبقات میں صدق کے قرائن ناپید ہوں، ان کی اسانید میں خبط ہے اور ان کے رجال کتابوں میں عموماً ناپید ہیں۔
|