Maktaba Wahhabi

135 - 676
لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾ (النساء: 78) حافظ حازمی کی ’’شروط الأئمة الخمسة‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات نے جمع اور تدوینِ حدیث میں کس قدر محنت فرمائی اور کس قدر دقتِ نظر سے فقہی ابواب مرتب فرمائے، تاکہ ان علوم سے بیش از بیش فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ان حضرات پر سازش کی بدگمانی ایمان اور دیانت سے اعلان جنگ ہے۔ احادیث میں عریانی: جسٹس محمد شفیع صاحب نے حضرت عائشہ اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہن کی بعض احادیث، جو غسلِ جنابت اور میاں بیوی کے باہمی تعلقات سے متعلق ہیں، ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’میں یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ یہ دونوں ازواج جو ہر لحاظ سے کامل تھیں، انہوں نے اس عریانی کے ساتھ اپنی پرائیویٹ باتوں کو ظاہر کر دیا ہو گا، جو ان کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میاں بیوی کی صورت میں ہوئیں ہوں گی۔‘‘ یہ درست ہے کہ بعض احادیث میں بعض بیانات عریاں طور پر مذکور ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے عیسائی اور سماجی حضرات نے ان پر اعتراض کیا ہے اور ان سے سن کر ہمارے بعض شیعہ اور اہل قرآن دوست بھی احادیث کو اپنی تنقید کا ہدف بناتے رہے ہیں، مگر ان حضرات کے اندازِ گفتگو سے طبیعت کو نہ تعجب ہوا نہ پریشانی، اس لیے کہ ان حضرات کا اندازِ فکر معلوم ہے، لیکن جسٹس محمد شفیع صاحب نے جس کرسی سے بات کی ہے، وہاں کی عقل و دانش کے متعلق ملک کے اربابِ فکر کو اعتماد ہے۔ یہاں اتنی سادہ بلکہ مہمل تنقید کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ گفتگو میں عریانی اخلاقاً معیوب ہے اور میاں بیوی کے مخصوص تعلقات کا بلاوجہ تذکرہ شرعاً ویسے بھی ناجائز ہے، لیکن جب ضرورت داعی ہو تو پھر اس عریانی کا تذکرہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ محترم جسٹس محمد شفیع صاحب نے کبھی زنا بالجبر اور نامردی کے کیس سنے ہوں گے، جہاں ایک طرف زنا بالجبر کی سنگین سزا کا خطرہ ہے تو دوسری طرف پردہ داری کا اخلاقی تقاضا، مگر یہاں عریانی کا اخلاقی تقاضا قطعاً تفتیش کی راہ میں حائل نہیں ہو گا۔
Flag Counter