Maktaba Wahhabi

215 - 676
حسبنا كتاب اللّٰه اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ: معترضین حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض ارشادات پر بہت ناز ہے۔ اسے الٹ پھیر کر اپنے رسائل اور جرائد میں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہ حضرات ’’تثبت في الحديث‘‘ اور انکار حدیث میں فرق نہیں سمجھتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدیث کو حجت سمجھتے تھے، اس لیے اس میں تثبت ضروری سمجھتے تھے۔ بعض وقت کبار صحابہ سے شہادت طلب فرماتے، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جب سلامِ اجازت کے بعد واپس چلے گئے تو چونکہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر تین دفعہ سلام کہنے کے بعد گھر والے اجازت نہ دیں، تو واپس چلے جانا چاہیے۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اسی حکم کے مطابق واپس چلے گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تثبت کے طور پر شہادت طلب کی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو قبول فرمایا اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو کوئی سرزنش نہیں فرمائی۔ [1] یہ تثبت ہے جو حجیت حدیث کو مستلزم ہے، لیکن ہمارے عقلمندوں نے خوش ہونا شروع کر دیا کہ حضرت عمر حدیث کی حجیت کے منکر تھے! إذا كان الطبائع طبائع سوء فلا أدب يفيد ولا أديب [2] اسی طرح ایک اثر امام شعبی رحمہ اللہ قرظہ بن کعب انصاری سے ذکر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ مقام صرار تک تشریف لائے، وضو کیا اور فرمایا کہ تم ایسی قوم کے پاس جاؤ گے، جن کی زبانیں قرآن کے ساتھ حرکت کرتی ہوں گی، تم ان کو احادیث کے ساتھ نہ روکنا۔ دوسری روایت ابو حسین عثمان بن عاصم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعض لوگوں کو عراق روانہ فرمایا تو ارشاد ہوا: ’’جردوا القرآن، و أقلو الرواية عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم وأنا شريككم‘‘
Flag Counter