Maktaba Wahhabi

539 - 676
حجت ہیں، بشرطیکہ اس کے خلاف دوسرا حکم نہ دیا گیا ہو۔ ہمیں ان سے یہ دریافت کرنے کا حق نہیں کہ آپ کے ارشاد کا حوالہ کہاں ہے؟ اگر اہل سنت کے نزدیک ان ارشادات کی یہ حیثیت نہ ہوتی، تو اس ذخیرہ کے جمع کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟! مقام حدیث: جو احادیث قرآن کے مطابق ہوں، انہیں قبول کرنا پیغمبر پر احسان ہے نہ ائمہ پر کوئی مہربانی۔ وہ قرآنی ہیں، انہیں بہرحال قبول کرنا ہے، اور جو احادیث (بالفرض) قرآن کے صریح خلاف ہیں، وہ قطعی ناقابل قبول ہیں، تاویل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسلّمات عقلیہ اور متواترات کا بھی یہی حال ہے۔ جو حدیث ان کے خلاف ہو، مقبول نہیں ہوتی، بلکہ وہ حدیث حدیث ہی نہیں ہو گی۔ ائمہ حدیث نے اس کی تصریح فرما دی ہے۔ ابن حزم رحمہ اللہ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تصنیفات پر نظر رکھنے والوں سے یہ اصل مخفی نہیں۔ [1] بحث صرف یہ ہے کہ مطابقت یا مخالفت کا معیار کیا ہو گا؟ اگر مطابقت اور مخالفت میں میرا اور آپ کا طریقِ فکر معیار قرار پائے تو یہ مخالفت آپ کے ذہن سے ہو گی، قرآن سے نہیں۔ آپ کے ذہن کا نام قرآن نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ہی حدیث کو آپ حضرات کے اذہان پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ آپ کوئی ناطق قرآن لائیے، جو خود بولے، میری اور آپ کی زبان سے بولنے کی ضرورت نہ رہے۔ خوارج اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی گفتگو [2] میں بھی یہی مشکل پیش آئی تھی کہ قرآن کی زبان سمجھنا مشکل ہو گیا تھا، وہ خود نہیں بولتا تھا۔ میں نے بطور فرض یہ گزارش کی ہے، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ مقام نبوت کو سمجھ لینے کے بعد حدیث یا سنت کی مخالفت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پیغمبر اگر قرآن کی مخالفت کرے، تو قرآن کے لیے کوئی مقام ہے، نہ پیغمبر کے لیے! جن احادیث کے متعلق قرآن ساکت ہے، ان کا تعلق احکام سے ہو یا معاشرت سے، پیش
Flag Counter