صرف آخرت کی بہتری مطلوب ہونی چاہیے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے معاملہ پہلے سے طے نہ ہو چکا ہوتا تو تمہیں بڑی سخت اذیت اور تکلیف سے سابقہ پیش آ جاتا۔
بدر کی جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ قیدی آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کے بعد ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑنے کا فیصلہ فرما دیا۔ مجلسِ شوریٰ کی اکثریت اسی فیصلہ کے حق میں تھی۔ خود قرآن کا جنگی قانون اس فیصلہ کی تائید میں تھا: ﴿فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً﴾ دونوں اختیار موجود تھے، لیکن بدر کے قیدیوں کے متعلق مصلحتِ خداوندی کا تقاضا اس اختیار کے خلاف تھا اور ائمۃ الکفر کو اس رخصت کا فائدہ دینا ناپسند تھا۔ اس لیے مجلسِ شوریٰ کے اس جمہوری فیصلے کو ناپسند کیا گیا لیکن مسترد نہیں فرمایا، تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء محتاط رہیں۔ [1] جنگی معاملات میں ایسے فیصلے روزمرہ کا معمول ہے اور برسر پیکار قومیں اس قسم کے فیصلے عموماً اپنی صوابدید سے کیا کرتی ہیں، لیکن یہ فیصلہ باوجودیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل جمہوری طریق پر کیا، تاہم ناپسند فرمایا گیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء عام متحارب قوموں کی طرح آزاد نہیں چھوڑے گئے۔ ﴿ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ﴾ (الأنبیاء: 23)
تیسرا واقعہ:
﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللّٰه لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللّٰه وَرَسُولِهِ ۗ وَاللّٰه لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴾ (التوبة: 80)
’’ان کے لیے استغفار بے سود ہے۔ آپ ستر دفعہ بھی ان کے لیے استغفار فرمائیں ان کو بخشا نہیں جائے گا، کیونکہ یہ خدا اور رسول کے منکر ہیں اور معصیت کیش لوگوں کے لیے بخشش کی راہیں نہیں کھل سکتیں۔‘‘
﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللّٰه وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ﴾ (التوبہ: 84)
’’اگر یہ منافق مر جائیں تو ان پر نماز مت پڑھو اور نہ ان کی قبر پر ٹھہرو۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور اسی فسق و فجور پر ان کی موت واقع ہوئی ہے۔‘‘
|