جس طرح 1947ء کا قتل عام ہماری نگاہوں نے دیکھا۔ لیکن اسے ’’عجمی سازش‘‘ یا فارسیوں کے سیاسی انتقام کا نتیجہ سمجھنا غلط ہے۔ یہ شیعہ سنی اختلافات کا نتیجہ تھا۔ اس میں ایرانیوں کا کوئی قصور نہ تھا۔ حملہ آور ترک تھے، حکومت عباسیہ مظالم کا تختہ مشق تھی اور یہی حکومت تھی جسے منکرین حدیث عجمی سازش کے لیے بدنام کرتے ہیں۔ اگر منکرین حدیث کا یہ نظریہ درست ہے، تو مطلب یہ ہو گا کہ عجمیوں نے اپنی سازشوں سے اپنے رفیقوں اور ساتھیوں کو برباد کر دیا۔ اس کے علاوہ نہ ابن علقمی ایرانی تھا، نہ طوسی! یہ دوسری بات ہے کہ ہر شیعہ کو ایرانی تصور کر لیا جائے۔ اگر یہ اصطلاح متعین کر لی جائے، تو شاید اہل قرآن حضرات پاکستان کی ساخت اور ملک کی تقسیم کو بھی عجمی سازش کہہ دیں!!
مولانا غور کریں گے تو میرے ساتھ اتفاق فرمائیں گے کہ بغداد کی تباہی کو شیعی سازش تو کہا جا سکتا ہے، لیکن اسے ایرانی یا فارسی سازش کہنا تاریخی لغزش ہو گی۔ اسی طرح قرامطہ کی تاریخ حسب ارشاد مولانا ’’خون سے بھری ہوئی ہے‘‘ لیکن عجمی شاہی خاندان اور ایران کے سابقہ حکمرانوں کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ یہ خلاف اسلام نظریات پیدا ہوتے رہے اور اسلام کی صحیح تعلیمات سے ٹکراتے رہے۔ یہ گاڑی صدیوں زمین کی سطح پر چلتی رہی، لیکن اسے عجمی سازش کہنا ایک مضحکہ خیز مغالطہ ہو گا۔
ہاں!
ایک دفعہ پھر ذہن نشین کر لیجیے! تاریخ کی یہ بیّن شہادت کہ فارسی حکومت نے اپنی تباہی کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی ہنگامہ نہیں اٹھایا اور یزدجرد کے قتل کے بعد فارس کے حاکم خاندان میں یہ سکت ہی کب رہ گئی تھی کہ وہ کوئی سازش کر سکیں؟ باقی رہے عوام تو انہیں اسلام کے نظامِ عدل نے اس قدر مطمئن کر دیا تھا کہ اسلام کے آتے ہی وہ آرام کی نیند سو گئے۔ انہیں یہ ضرورت ہی نہ رہی کہ وہ سازش کریں۔
انمل بے جوڑ:
میں نے سوال کے ابتدائی اجزاء کی تنقید میں ناظرین کا بہت وقت لے لیا، اس لیے کہ سائل محترم نے اسے خواہ مخواہ ایک تاریخی حقیقت قرار دے کر اس پر زور قلم صرف فرمایا، حالانکہ جس طرح عرب جغرافیہ کا ذکر یہاں بالکل بے جوڑ ہے، اسی طرح حدیث کی تدوین میں عجمی
|