Maktaba Wahhabi

131 - 676
’’جسے عادل اور ضابط راوی روایت کرے، اس میں نہ کوئی علت ہو اور نہ شذوذ ہو اور راوی کا مروی عنہ سے سماع ثابت ہو۔‘‘ غرض مختلف مسائل میں بتدریج فیصلہ ہوا۔ تدریج کا یہی مطلب ہے کہ مسئلہ بحث و نظر کے بعد کسی قطعی مرحلہ پر پہنچ جائے۔ اہل حدیث اور حدیث میں یہی طریق جاری رہا، یہاں تک کہ اکثر مسائل میں بحث و نظر کی ضرورت رہی نہ گنجائش۔ آج بھی ہمارے پاس قرآن کا کوئی حکم اور سنت کا ایسا کوئی فیصلہ موجود نہیں کہ تنقیدِ روایات و احادیث پر بحث و نظر کی راہیں بند ہو چکی ہیں۔ بلاشبہ فن متحرک ہے، لیکن علماء نے ہر پہلو پر بحث و فکر کے بعد محسوس فرمایا کہ ضرورت کے مطابق فن کی تکمیل ہو چکی ہے۔ آج سے صدیوں پیشتر کے واقعات پر احتمالات اور امکان کے گھوڑے دوڑانا ٹھیک نہیں۔ اس سے بحث برائے بحث کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ صرف، نحو، معانی، بیان کا بھی یہی حال ہے کہ قریب قریب یہ فن کافی حد تک مکمل ہیں۔ ان فنون پر بحث سے شارع نے نہیں روکا، لیکن واقعات نے بتایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ اصولِ روایت: علامہ شبلی مرحوم نے ’’سيرة النعمان‘‘ میں فقہ حنفیہ کی حمایت میں فرمایا کہ اصولِ حدیث میں درایتاً بحث نہیں کی گئی، [1] لیکن اس مسئلہ میں مولانا مرحوم کوئی قیمتی معلومات مہیا نہیں فرما سکے اور جو فرمایا اس پر ’’حسن البیان‘‘ اور ’’سیرۃ البخاری‘‘ میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ اور مولانا عبدالسلام مبارک پوری رحمہ اللہ نے، اور ’’الارشاد‘‘ میں مولانا ابو یحییٰ شاہ جہان پوری رحمہ اللہ نے قلم اٹھایا اور اس بحث کو انتہا تک پہنچا دیا۔ نتیجتاً اس کے بعد کی تصانیف میں مولانا شبلی نے ’’سيرة النعمان‘‘ کے اندازِ بحث و نظر کو بدل دیا، بلکہ آئندہ کے لیے تصنیف میں وہ راستہ اختیار ہی نہیں کیا۔ علمائے سنت کا یہ قطعی خیال نہیں کہ اصول حدیث میں اضافہ شرعاً ممنوع ہے یا ان اصول پر تنقید شرعاً درست نہیں یا ان کا من و عن قبول کرنا شرعاً ضروری ہے، بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ حدیث کی چھان پھٹک اور اس کے قواعد اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ مزید بحث بے ضرورت ہے۔
Flag Counter