نام ’’ہیرے کی جوت‘‘۔ یہ جرأتیں آپ تنقید کرنے والوں کے لیے بدگمانی کی راہ کھولتی ہیں ؎
فاحفظ وقيت فتحت قدمك هوة
كم قد هويٰ فيها من الإنسان [1]
وقت کی ضرورت:
ایسے وقت میں جب حدیث اور سنت کے خلاف لادینی حلقوں میں ایک طوفان بپا ہے، اس قسم کی کمزور اور بے اصل باتیں کرنا مناسب نہیں۔ یہ وقت باہم خطابات کی تقسیم کا نہیں اور نہ ہی بحث سے اس طرح پہلوتہی کرنا اس وقت قرینِ مصلحت ہے۔ یہ معذرت کا انداز اور چور دروازوں کی طرف رہنمائی نہ حدیث کی خدمت ہے نہ سنت کی حمایت۔
پچھلے دنوں مولانا مودودی کی ایک دو بے محل تقریروں سے اخبارات میں کچھ ہنگامہ ہوا تو ہمارے بعض ’’اہل حدیث‘‘ دوست، جو اب جماعت اسلامی کے ہو چکے ہیں، مولانا کے نظریہ کی دیانتاً کھلی حمایت تو نہ کر سکے، مگر اس طرح پردہ پوشی فرمائی کہ ’’پہلے علماء بھی ایسا کہتے تھے۔‘‘ بعض حضرات ’’مزاج شناسی‘‘ کے حوالوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، حالانکہ مناسب یہ تھا کہ ’’مسلکِ اعتدال‘‘ ایسی تحریروں سے مولانا کو بھی روکا جاتا۔ جماعتی تعلقات کا احترام بےشک کیا جائے، لیکن حق کا احترام اور سنت کی حمایت وقت کی شدید ترین ضرورت ہے، جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا میں اسلامی نظام بپا ہونے کی بھی صرف یہی صورت ہے کہ سنت پر جس محاذ سے حملہ ہو، دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مدافعت کی جائے۔ اپنی انصاف پسندی اور وسعتِ ظرف کے ثبوت میں معذرت کا انداز ضرورتِ وقت کے بالکل خلاف ہے۔ خود مولانا کو بھی ایسے خوشامد پسند حضرات سے بچنا چاہیے، جن کی صرف یہی فکر ہو کہ ان کی وفاداری مشتبہ نہ ہو جائے۔
رُوات کی عصمت:
راوی نہ معصوم ہیں نہ آج تک کسی نے ان کی عصمت کا دعویٰ کیا، نہ ایسا ممکن ہے، البتہ مجموعی لحاظ سے فنِ حدیث پر عصمت کا ظن غالب ہے۔ جس طرح حفاظ کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عنایت فرمائی کہ وہ قرآن کو محفوظ رکھ سکیں، یعنی ہر حافظ معصوم نہیں، لیکن قرآن کے حفظ کی اللہ تعالیٰ
|