Maktaba Wahhabi

101 - 676
وكم من عائب قولاً صحيحاً و آفته من الفهم السقيم شریعت نے ہر مناسب مسئلہ پر اس ظن کو قابل اعتماد و استناد سمجھا ہے اور اس پر احکام کی بنیاد رکھی ہے۔ حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والشارع لم يكلف العباد بما في نفس الأمر، بل بما ظهر و بدا، وإن كان مخالفاً لنفس الأمر‘‘ (القواعد، ص: 356) ’’شارع نے اپنے بندوں کو یہ تکلیف نہیں دی کہ وہ نفس الامر کی تلاش کریں، بلکہ اس کی جو کچھ بظاہر موجود ہو، گو وہ نفس الامر اور واقع کے خلاف ہو۔‘‘ قرآن عزیز نے فرمایا: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰه نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ﴾ (البقرۃ: 286) ’’انسان کو اس کی وسعت اور توفیق کے مطابق تکلیف دی ہے۔‘‘ جو چیز اس کے بس میں نہیں وہ اس کا مکلف نہیں۔ جہاں تک شبہات کا مداوا ہو سکتا ہے کرنا چاہیے۔ جہاں ممکن نہ ہو وہاں اپنے آپ کو شکوک و شبہات کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ ائمہ حدیث نے بھی یہی کیا ہے۔ ایک بدبودار شبہ: انکار حدیث کے نظریہ کی عمر تقریباً ستر سال ہو گی، جس کی ابتداء مولوی عبداللہ صاحب، مولوی حشمت علی صاحب لاہور، مولوی رمضان صاحب گوجرانوالہ، رشید الدولہ صاحب گجرات، منکرین حدیث ملتان، ڈیرہ غازی خان وغیرہ نے کی اور حدیث اور ائمہ حدیث کے اصولوں پر کڑی تنقیدیں کی ہیں، لیکن حدیث میں فارسی سازش کا کبھی شبہ ان حضرات نے نہیں کیا۔ تاریخ سازی کا یہ انکشاف ادارہ طلوع اسلام اور مولانا جیراج پوری کے حصے میں آیا ہے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ ائمہ حدیث میں چونکہ کافی تعداد اہل فارس کی ہے۔ فارسی حکومت چونکہ پہلی صدی ہی میں ختم ہو چکی تھی۔ یزد جرد کی موت کے بعد فارسی اقتدار ہمیشہ کے لیے دم توڑ گیا۔ منکرین حدیث کا خیال ہے
Flag Counter