Maktaba Wahhabi

100 - 676
یہ حسنِ ظن ہے کہ اگر یہ اسباب میسر آ جائیں تو غالباً یہ معاملات صحیح اور درست ہو جائیں گے۔ لوگ تجارتی سفر اسی حسن ظن کی بنا پر کرتے ہیں کہ وہ صحیح سلامت بھی رہیں گے اور ان کو فائدہ بھی ہو گا۔ اسی طرح کاریگر گھروں سے نکلتے ہیں کہ انہیں کام بھی ملے گا اور فائدہ بھی ہو گا۔ کسان کھیتی باڑی اس حسن ظن کی بنا پر کرتے ہیں کہ انہیں اس سے آمدنی ہو گی۔ اونٹ خچروں کے مالک بھی حسنِ ظن ہی کی بنا پر نکلتے ہیں کہ انہیں اجرت میسر آ جائے گی۔ بادشاہ اسی خیال سے لشکر کشی کرتے ہیں، قلعے تعمیر کرتے ہیں کہ انہیں فتح حاصل ہو گی اور فوجیں بھی اپنا بچاؤ اور اسلحہ کا استعمال اسی لیے کرتی ہیں کہ انہیں غلبہ حاصل ہو گا اور سفارشیں بھی اسی لیے کی جاتی ہیں کہ شائد انہیں قبول کر لیا جائے گا۔ علماء بھی اسی ظن سے علوم پڑھتے ہیں کہ انہیں امتیازی مقام حاصل ہو گا۔ اور مناظر اور مجتہد ادلہ میں زیادہ تر اعتماد ظنیت پر ہی کرتے ہیں اور کامیابی کی امید رکھتے ہیں۔ بیمار بھی علاج میں اسی لیے کوشش کرتے ہیں کہ شاید انہیں شفا حاصل ہو گی، اور اکثر اوقات یہ ظن صحیح اور درست ثابت ہوتا ہے، غلط اور جھوٹ نہیں ہوتا۔ ان مصالح کو معطل کرنا، اس لیے کہ ان میں کبھی کبھی ناکامی بھی ہو جاتی ہے اور نادر طور پر یہ ظن درست ثابت نہیں ہوتے، محض جہالت اور نادانی ہے۔ ظاہر ہے کہ ساری کائنات ’’دنیا بامید قائم‘‘ کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ شارع نے بھی اپنے اکثر احکام کی بنیاد ظن پر رکھی ہے۔ متمدن دنیا کے مختلف طبقات بھی ظن اور امید ہی کے سہارے پر چل رہے ہیں۔ ائمہ حدیث نے حدیث پر تنقید، تصحیح اور تضعیف کی بنیاد عام دنیا کے بالمقابل کہیں زیادہ یقینی امور پر رکھی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اصطلاح کے لیے ظن کا لفظ پسند فرمایا، جسے ہمارے منکرین حدیث نے شک و شبہ کے معنیٰ میں لے کر اس کا انکار کر دیا ہے۔ یہ غلطی زبان اور اس کے تصرفات سے لاعلمی کی بنا پر ہوئی۔ عربی زبان میں ’’مكر‘‘ تدبیر کے معنیٰ میں استعمال ہوتا تھا۔ پھر بری تدبیر کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا۔ جب اسے اردو اور پنجابی میں استعمال کیا گیا تو اس کا معنیٰ دھوکہ اور فریب کیا گیا۔ بیچارے پنڈت دیانند ایسے کم علم آدمی نے قرآن پر اعتراض جڑ دیا کہ اس میں خدا تعالیٰ کو ’’مکار‘‘ کہا گیا ہے۔
Flag Counter