جمعِ حدیث کا حکم عمر بن عبدالعزیز نے دیا۔[1] کیا خلیفہ عمر بن عبدالعزیز عجمی تھے؟
صحیح بخاری شریف کے ان ابواب اور ان کے محتویات پر ایک غائر نظر ڈالیے، یہاں کوئی بھی حسب اطلاعِ ’’ادارہ طلوع اسلام‘‘ اگر سازش تھی تو عجمی بازی ہار گئے۔ اب تم لوگ بہت ہی عقلمند ہو کہ محدثین پر طعن کر کے جیتی ہوئی بازی ہار رہے ہو؟
سیدھی بات:
سیدھی بات یہ ہے کہ بعض احادیث تمہارے علم سے بالا ہیں، آپ انہیں سمجھ نہیں سکے۔ ان پر بحث کیجیے، کسی عالم سے پڑھا لیجیے، پھر بھی ذہن میں نہ آئیں تو انکار کر دیجیے، لیکن امت کی سینکڑوں سال کی خدمات پر اپنی جہالت سے پانی نہ پھیریے۔ یہ بڑا قیمتی ذخیرہ ہے، اس کی صحیح قیمت جوہری ڈال سکتا ہے۔ تم وہ کام کرو جس کے تم اہل ہو، یہ ان کے لیے رہنے دو، جو اس کے اہل ہیں۔
ادباً گزارش:
مجھے اس تلخ نوائی پر معاف فرمایا جائے، الفاظ سخت ہیں، مگر دعویٰ یہی ہے۔ استعارہ یا نرمی حقیقت کو بدلنے کے مترادف ہیں، اس لیے اصلی لفظوں میں سن لیجیے۔ میری قطعی رائے ہے اور اس کی بنا تیس سال کا تجربہ ہے کہ تحریک انکارِ حجیت حدیث کے بانی بَد نیت بھی ہیں اور بے دین بھی۔ یہ اسلام کے نام پر جو کچھ کہتے ہیں، جھوٹ ہے۔ یہ حضرات اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ مناظرات اور افہام و تفہیم سے یہاں کوئی فائدہ نہیں۔ عوام میں یقیناً جہالت کی وجہ سے کچھ لوگ مخلص ہوں گے، لیکن اساطینِ دعوت یقیناً ایمان و دیانت کے دشمن ہیں، اور فرنگیت کے شکست خوردہ!
عجمی سازش کہاں ہے؟
ہماری تحقیق یہ ہے کہ عجمی سازش کا شکار تم لوگ ہو۔ مغل راج کی جگہ انگریز راج علماءِ اسلام کو ناپسند تھا۔ ان لوگوں نے پوری عزیمت سے اس کی مخالفت کی، اس کا نتیجہ 1857ء کا معرکہ حریت تھا۔ انگریز سمجھ گیا کہ علماء سخت جان ہیں، قوت سے نہیں دبیں گے۔ یہاں کامیابی کے لیے پھوٹ کا
|