Maktaba Wahhabi

413 - 676
نسخہ مفید ہو سکے گا، اس لیے دو آدمی ان کی نظر میں آئے، مرحوم سرسید احمد خان علی گڑھی اور مرزا غلام احمد صاحب آں جہانی۔ سرسید شاید اس حد تک مخلص ہوں اور ان کا خیال دیانت داری پر مبنی ہو کہ انگریزی تہذیب کو قبول کر لینا ہی اس وقت مفید ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق دیانت داری سے میری یہ رائے ہے کہ ان کو اسلام سے ہمدردی تھی نہ انگریز سے۔ وہ تاجر تھے، انہیں اسلام اور انگریز سے کاروباری انداز کی ہمدردی تھی، جس کو انہوں نے مدت العمر پوری خوبی سے نبھایا۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی سادہ مزاج تھے، لیکن جاہ پسند، بڑائی کے خواہشمند۔ ان کے متعلق یہ رائے ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ان کو برسوں دیکھا۔ عام اہل توحید عموماً اہلحدیث خصوصاً انگریز کے سخت ترین دشمن تھے۔ مرزا صاحب نے سب سے پہلے اہلحدیث کو مخاطب کیا، بطور فریق ان کے مقاصد کو نقصان پہنچانے سے انگریز کی حمایت کی۔ اس کو فروغ ہوا اور قادیان کی دکان چمک گئی، تو عبداللہ نے اس روش پر حدیث کا نکار کیا اور اہل حدیث کو مدمقابل قرار دیا، تاکہ انگریز کی نظروں میں مقبول ہو سکے۔ انگریز کی ضرورت پہلے دو بزرگوں سے پوری ہو چکی تھی۔ اور یہ مولوی عبداللہ صاحب بچارے چنداں عقلمند بھی نہ تھے، اس لیے یہ تو معلوم نہیں کہ ان کو کچھ ملا یا نہیں، لیکن حق کی مخالفت میں یہ بھی شامل ہو گئے۔ آپ کی موجودہ تحریک چار امکان پر قائم ہے: ذہنی آوارگی، لا دینی، تاویل، انکار حدیث۔ آپ حضرات کا تصوری سلسلہ ان تین بزرگوں سے ملتا ہے۔ ذہنی آوارگی سرسید سے، تاویل مرزا غلام احمد صاحب سے اور انکار حدیث مولانا عبداللہ چکڑالوی سے۔ لا دینی سب میں مشترک ہے اور یہ تینوں انگریز کا شکار ہیں۔ انگریز اور اس کی سیاست کو جس آڑے وقت میں ان لوگوں نے بچایا ہے اور انگریز نے زندگی بھر جو ان کی مدد کی ہے، وہ دنیا سے مخفی ہے نہ آپ سے۔ اگر انگریز مسلم اور عرب ہے تو آپ عربی سازش کا شکار ہیں۔ اگر عجمی ہے تو آپ عجمی سازش کا شکار ہیں۔ واقعات اس کے شاہد ہیں۔ اگر آپ اس پر مزید شہادت چاہیں تو پیش ہو سکتی ہے، بلکہ آپ خود میرے دعویٰ کی شہادت ہیں: ﴿بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ﴿١٤﴾ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ ﴾ (القیامہ: 14-15)
Flag Counter