قرآن عزیز نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سفر کا ذکر فرمایا، جو وطن مالوف سے شروع ہوا اور براستہ مصر فلسطین پر منتہی ہوا۔ اس میں حضرت لوط علیہ السلام بھی شریک سفر تھے، ایک عظیم ابتلاء کے بعد ہجرت کا سفر پیش آیا، لیکن کہیں نماز کا ذکر نہیں ملتا۔ حضرات مدعیان درایت ارشاد فرمائیں! یہ وضع کا قرینہ قرآن میں کہاں سے آ گیا؟
سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کا سفر مذکور ہے۔ قرآن عزیز نے یوسف علیہ السلام کے علم و فہم، زہد و تقویٰ کا تفصیلی تذکرہ، قید، براءت، جیل کے وعظ، پھر تمکن فی الارض، عفت اور قحط میں سات سال تک راشن کی تقسیم فرمائی اور عزیز مصر کے عہدہ تک پہنچے گا، مگر نماز کا تذکرہ نہیں۔ عمادی درایت کا تقاضا تو یہی ہے کہ سورہ یوسف کو وضع و تخلیق سے متاثر سمجھ لیا جائے!
قرآن عزیز میں انبیاء اور صلحاء کے سفروں کا تذکرہ چونکہ مقصود نہ تھا، اس لیے واقعہ ذکر ہوا، نماز کا ذکر نہیں۔ عمادی صاحب یا تو قرآن کو موضوع اور مختلق سمجھیں یا پھر اپنی اس درایت کو کسی پرانے قبرستان میں دفن فرما دیں!
اور ہاں عمادی صاحب! امام مالک رحمہ اللہ اور ہشام بن عروہ رحمہ اللہ کی روایت میں بھی صرف صبح کی نماز کا ذکر ہے، باقی سارے سفر میں نماز کا ذکر نہیں، لیکن اس کو آپ نے صحیح تسلیم کیا ہے!
اصل بات یہ ہے کہ عدم ذکر سے عدم شے لازم نہیں آتا۔ تاریخی حوادث میں غیر متعلق واقعات کا تفصیلی تذکرہ کوئی عقل مند نہیں کر سکتا۔
نہم:
عمادی صاحب فرماتے ہیں:
اس تنہائی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رونا چاہیے تھا، غش کھا کر گرنا چاہیے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نیند کیسے آ گئی؟ حدیث میں چونکہ ان واقعات کا ذکر نہیں بلکہ نیند کا ذکر ہے، اس لیے حدیث موضوع ہے۔
عقل کے دشمنوں سے کیا عرض کیا جائے؟ ایسے مواقع میں رونا اور گھبرانا انتہائی حماقت ہے، جذبات پر کنٹرول سب سے بڑی خوبی ہے۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے صبر ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور اسی ماحول میں رک گئیں اور یہی خیال درست تھا۔ گمشدگی کے احساس میں یقیناً تلاش کے لیے
|