تفردات بھی ہوں تو انہیں بھی نمایاں کر دیا جائے۔ تھوڑی سی محنت سے توقع ہے ایک مفید تالیف مرتب ہو جائے۔ فتح الباری، عمدۃ القاری، قسطلانی اور کرمانی سے ایسا مجموعہ مرتب ہو سکتا ہے۔
خبر واحد:
ائمہ کلام اور فقہاء نے گفتگو کا جو انداز خبر واحد کے متعلق اختیار فرمایا تھا، اس کی تفصیل علم کلام کی کتابوں میں موجود ہے۔ ان سے متاثرہ ہو کر علماءِ اصول نے بھی اصولِ فقہ میں اسے مستقل بحث کی حیثیت دے دی۔ کچھ شک نہیں کہ اخبار کے مراتب میں تفاوت ہے۔ ہر خبر ایک پایہ کی نہیں۔ متواتر جسے قرآن کا ہم پایہ سمجھا جاتا ہے، اس کی حجیت میں بھی اختلاف ہے، چنانچہ سمنیہ اور براہمہ متواتر کو بھی حجت نہیں سمجھتے۔ (كشف الأسرار) [1]
حالانکہ دنیا کا پورا نظام خبروں پر چل رہا ہے۔ متکلمین اور فلاسفہ سے متاثر ہو کر علماءِ اصول نے بھی اسے خطرناک مبحث کی صورت دے دی۔ خبر واحد ان کی نظر میں کوئی ہیبت ناک چیز ہے۔ اصول بزدوی اور اس کی شرح ’’كشف الأسرار‘‘ ملاحظہ فرمائیے، [2] خبر واحد اور اس کی حجیت اور اس پر اعتراضات میں کئی اجزا لکھ دیے گئے ہیں۔ ’’إرشاد الفحول‘‘ کے مؤلف نے بھی ان مباحث کا کافی حصہ لکھا ہے۔ [3]
متکلمین کی بحث تو سمجھ میں آتی ہے، وہ فلاسفہ سے متاثر ہیں اور انہیں احادیثِ صفات کےانکار سے پہلے کسی نہ کسی آڑ کی ضرورت تھی، مگر فقہاءِ حنفیہ اور ائمہ اصول کو معلوم نہیں کیا ہوا، وہ بھی خبر واحد سے بے حد گھبرائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، حالانکہ فصلِ خصومات کا سارا انحصار اخبار آحاد پر ہے اور محکمہ قضا میں ساری قوتِ فیصلہ شہادت پر ہے۔ یہ ظن اصطلاحی تھا، عوام نے اور خصوصاً منکرین سنت نے اسے عرفی معنی میں لیا، بلکہ اس سے بھی کمتر، یعنی وہم کے مترادف سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس مسامحت نے احادیث کے تمام تر ذخیرہ کو ظنی اور وہمی کہہ دیا اور سنت کے خلاف ان جہلاءِ دہر نے ایک ہنگامہ بپا کر دیا۔
|