ترجمۃ الباب میں صحیح مسلک کی طرف رجحان کے قرائن رکھ دیے۔ بعض اوقات تبویب میں مختلف نظریات ذکر فرمائے، اس کے مطابق احادیث ذکر فرما دیں، دونوں امر شرعاً درست تھے، ترجیح کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ مقصد یہ ہے کہ امت پر کشادگی رہے، مثلاً ران کا ڈھانپنا ضروری ہے یا نہیں؟ بعض روایات تعلیقاً ذکر فرمائیں اور بعض مع اسانید بیان فرمائیں اور طویل بحث کا فیصلہ دو حرفوں میں فرمایا:
’’حديث أنس أسند، و حديث جرهد أحوط‘‘ (الجامع الصحيح: 53) [1]
’’حضرت انس کی روایت سند کے لحاظ سے مضبوط ہے اور جرہد کی حدیث ’’الفخذ عورة‘‘ (ران پردہ ہے) میں احتیاط ہے۔‘‘
تمام پہلوؤں پر نہایت احتیاط سے گفتگو فرمائی۔
مناظرات میں اعتدال:
امام رحمہ اللہ نے عام علماء اور جدید تہذیب میں مباحثات کے متعلق ایک نقطہ اعتدال قائم فرمایا ہے۔ اختلافِ فہم انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اس کا ظہور بہرحال ہو گا، اس سے بچنا مشکل ہے، لیکن اس میں تلخی آنی چاہیے۔ دوسرے فریق کی امانت پر اسی قدر اعتماد کرے، جس قدر اپنی دیانت پر ہے اور فروع و اصول تمام مختلف فیہ مسائل میں تحقیق کی کوشش کرے۔ جو مسئلہ حق معلوم ہو جائے، اس پر عمل کرے اور بلاوجہ مخالف کی تکفیر یا تفسیق نہ کرے۔
بعض الناس:
امام نے بعض اہل علم کی فقہیات میں تعارض ذکر فرمایا ہے۔ ’’قال بعض الناس‘‘ کے عنوان سے ان مختلف فقہی جزئیات کا ذکر فرمایا ہے، جو ان مستندات میں مرقوم ہیں، لیکن نہ کسی کا نام نہ ان کی مستندات کا تذکرہ فرمایا۔ بعض حضرات کو امام کی یہ روش ازبس ناگوار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شاید حقارت کے سبب نام نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ مقصد اشخاص اور ان کے ناموں کا تذکرہ نہیں، بلکہ مطلب صرف اس قدر ہے کہ طریقِ بحث کی غلطی ظاہر ہو جائے۔ امام نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ کسی مخالف کا نام ذکر کیا جائے۔ ﴿الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا﴾ (یوسف: 23) اور
|