(4) اس کے قریب قریب ’’أقرب الموارد‘‘ اور ’’مجمع البحار‘‘ میں مرقوم ہے:
’’فَقِه بالكسر إذا فهم و علم، وبالضم إذا صار فقيها عالما، وجعله العرب خاصا بعلم الشريعة و تخصيصا بعلم الفروع منها‘‘ (مجمع البحار: ج 3)
باقی معانی کے علاوہ مطلقاً علم اور علم الفروع کو بھی فقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ تعبیریں متاخرین نے فرمائیں، جب مروجہ فقہ مدون ہوئی۔ لغت سے ظاہر ہے کہ فقہ کسی خاص فن میں محصور نہیں، بلکہ اس لفظ کے معانی اور محمل متعدد ہیں۔ ہر علم ’’فقہ‘‘ کہلا سکتا ہے اور اس تفقہ کے مراتب مختلف ہیں۔
شرعی اصطلاح:
اصطلاحِ شریعت میں فقہ کا لفظ مختلف مقامات پر بولا گیا ہے۔ ہشام بن عبیداللہ فرماتے ہیں:
’’من لم يعرف اختلاف الفقهاء فليس بفقيه‘‘ (جامع بيان العلم لابن عبدالبر: 2/46)
یعنی جو علماء کے اختلافات کو نہیں جانتا، وہ فقیہ نہیں کہلا سکتا۔
قتادہ فرماتے ہیں:
’’من لم يعرف الاختلاف لم يشم الفقه بأنفه‘‘ (جامع: 2/46)
یعنی جو علماء کے اختلافات کو نہیں جانتا، اس نے فقہ کو سونگھا بھی نہیں۔
حارث بن یعقوب فرماتے ہیں:
’’إن الفقيه كل الفقيه من فقه في القرآن، وعرف مكيدة الشيطان‘‘ (جامع ابن عبدالبر: 2/46)
یعنی فقیہ وہ ہے، جو قرآن کو سمجھے اور شیطان کے فریبوں کو پہچانے۔
امام مالک سے پوچھا گیا: کیا علماء کے اختلافات سے اہل الرائے کے اختلافات مراد ہیں؟ فرمایا: صحابہ کے اختلافات مطلوب ہیں۔ [1]
مجاہد فرماتے ہیں: ’’الفقيه من خاف اللّٰه ‘‘ (جامع: 2/49)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت حضرت علی رضی اللہ عنہ منقول ہے:
|