Maktaba Wahhabi

267 - 676
تقریب مولانا مودودی کا حدیث پاک کے متعلق جو نظریہ ہے، وہ اہل حدیث کے لیے نیا نہیں۔ وہ تو بارہا کا چبایا ہوا نوالہ ہے، ان لوگوں کا جن کے مزعومہ و مبتدعہ نظریات کے خلاف جب کوئی مستند حدیث سامنے آتی تو وہ اس کے مسترد کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتے اور رنگ اس کو ’’علمی‘‘ دے لیا کرتے تھے۔ پھر اس استردادِ حدیث کے دوررَس نتائج کو – گو وہ کیسی ہی معصومیت سے کیوں نہ ہو – بھی اہل حدیث ہی خوب سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ مضمون ان ہی کا ہے۔ وللہ الحمد! مولانا ثناء اللہ مرحوم امرتسری کی ژرف نگاہی قابل داد تھی کہ اسلام پر عموماً اور اہل حدیث کے مسلک پر خصوصاً جب اور جس انداز سے بھی حملہ ہوتا، وہ اس کو فوراً تاڑ جاتے اور اپنے مخصوص طریقے سے اس کا کامیاب دفاع کرتے تھے۔ مودودی صاحب کا مشہور مضمون ’’مسلکِ اعتدال‘‘ جب پہلے پہل چھپا تو مولانا موصوف نے اس کا نوٹس لیا اور متنبہ کیا کہ یہ سرسید احمد خاں کی صدائے بازگشت ہے اور اس میں انکارِ حدیث کے جراثیم موجود ہیں۔ یہ مضمون مرحوم اخبار ’’اہل حدیث‘‘ میں بالاقساط، بعدہ ’’خطاب بہ مودودی‘‘ کے نام سے الگ رسالہ کی شکل میں طبع ہوا۔ جب محتاط لفظوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ مودودی صاحب کے ’’مسلکِ اعتدال‘‘ سے انکارِ حدیث کے لیے دروازہ کھلتا ہے تو جماعت اسلامی کے دوست گھبرا اٹھتے اور سیخ پا ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ واقعہ ہے کہ مسٹر غلام احمد صاحب پرویز نے اپنے نظریہ انکارِ حدیث کے سلسلے میں مولانا مودودی صاحب کو اپنی شہادت میں بارہا پیش کیا ہے اور جماعت اسلامی کے اکابر و اصاغر اس الزام کے جواب سے اب تک عاجز ہیں۔ پرویز صاحب کو اس جرأت کی ایک اہم وجہ یہ ہوئی کہ حدیث شریف کے خلاف ان کا پہلا مضمون ’’شخصیت پرستی‘‘ مولانا مودودی کے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں چھپا تھا اور مولانا صاحب
Flag Counter