نے اس کی فی الجملہ تائید فرمائی تھی، اور وہ تائید ’’مسلکِ اعتدال‘‘ کی نوعیت کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ مودودی صاحب نے حدیث کی نصرت و حمایت میں بھی مضامین لکھے ہیں۔ پرویز صاحب کی پوزیشن اس بارے میں یہ ہے کہ یہ ’’مودودی صاحب کا تضاد ہے‘‘ اور یہ حقیقت ہے کہ مودودی صاحب اور ان کے نئے پرانے حواری اس ’’تضاد‘‘ کو آج تک اٹھا نہیں سکے۔
اُن دنوں کی بات ہے جب تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں مولانا مودودی صاحب کو خواہ مخواہ جیل جانا پڑا کہ پرویز کے ’’طلوعِ اسلام‘‘ نے جماعتِ اسلامی پر بھی وہی بھرپور وار کر دیا۔ مولانا جیل سے رہا ہوئے، چند دن سُستا کر ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے جواب کے لیے برکت علی محمڈن ہال، لاہور میں ایک تقریر کا اہتمام کیا گیا۔ تقریر فرمائی گئی، مگر افسوس! اس میں سب کچھ تھا، اگر نہیں تھا تو ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس ’’الزام‘‘ ہی کا جواب نہیں تھا، بلکہ یہ تقریر ان کے سابقہ مضامین کا خوبصورت خلاصہ تھا۔
اس بھرے مجمع میں مولانا نے صاف طور پر اور بلا ضرورت حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کی ’’الجامع الصحيح‘‘ کے متعلق ایسے الفاظ فرمائے، جس سے اسلام کی اس بنیادی کتاب کی مندرجہ احادیث کی صحت مشکوک اور اس کی اہمیت کم ہو کر رہ جاتی ہے۔
’’الاعتصام‘‘ لاہور نے مرکزی جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان کا ترجمان ہونے کی حیثیت سے اس پر گرفت کی اور لکھا کہ حضرت! اس میں کیا تُک ہے کہ تقریر کا اشتہار تو ہو حمایتِ حدیث کے لیے اور برس پڑے آپ صحیح بخاری پر؟ بس یہ لکھنا تھا کہ جماعت اسلامی کے جنود مودودی صاحب کے اس نظریہ کی حمایت میں میدان میں آ گئے اور ہر شخص نے اپنی استعداد کے مطابق اس خدمت کو سر انجام دیا۔ سب سے آخر میں مولانا امین احسن صاحب اصلاحی نمودار ہوئے۔ انہوں نے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک طویل مضمون شائع کرایا، جس میں نہ صرف یہ کہ صحیح احادیث میں تشکیک پیدا کرنے پر خوب خوب داد ’’تحقیق‘‘ دی گئی بلکہ اس کا لب و لہجہ بھی ان کی روایتی سنجیدگی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
اس ’’حادثہ‘‘ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ لاہور والی اس تقریر کو بھی ’’طلوعِ اسلام‘‘ نے اپنی تائید میں سمجھا۔ مگر جماعتِ اسلامی کے حضرات تھے کہ بجائے اس طرف رخ کرنے کے انہوں نے
|