یوں بھی مولوی عبداللہ بچارے کچھ زیادہ ذہین نہیں تھے۔ الف لام اور تنوین سے جس طرح انہوں نے مسائل کشید کرنے کی کوشش کی، وہ اہلِ علم کی محفلوں میں مضحکہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ نحو کی اس منطق سے اہلِ زبان بھی یقیناً نا آشنا ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ترجمہ اور تفسیر جن لوگوں کی نظر سے گزری ہے، وہ آسانی سے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ کسی ذہین اور ذکی آدمی کا کام نہیں۔
اصولِ حدیث میں وسعت:
مقصودِ کلام یہ ہے کہ انکارِ حجیت حدیث کی بحث سر تا سر قلتِ مطالعہ کی پیداوار ہے۔ ائمہ حدیث نے ظرف و حال کے مطابق کچھ اصول وضع فرمائے اور آنے والے لوگوں کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیا تاکہ وہ رجال اور اسانید پر دیانت کی روشنی میں بحث کریں۔ جس حدیث پر انہیں شبہ ہو اسے ظاہر کریں، اس کی سند پر بحث کریں، اسے درایت کی روشنی میں سمجھیں اور اس کے لیے اہل علم کی طرف رجوع کریں۔ اگر تسکین نہ ہو تو شبہات کو اس حدیث تک محدود رکھتے ہوئے توقف کریں، البتہ بحث جاری رکھیں۔ ﴿ لَعَلَّ اللّٰه يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ﴾ (الطلاق: 1)
مگر فن پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش یقیناً اہل ملحدانہ کوشش ہے۔ امت کے اعمال اور علمی خدمات کے ساتھ یہ وطیرہ احسان فراموشی ہے۔ ان کے علوم کے استفادہ کے بعد ان پر بدگمانی کو احسان فراموشی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ آج کے نو آموز اکتشافی محققین اگر سوچیں تو انہیں یقین ہو گا کہ آج الٹا سیدھا جو کچھ لکھا جا رہا ہے، یہ متقدمین کا فیضان ہے اور ان کا علمی مساعی کا نتیجہ ہے، اس استفادہ کے بعد ان پر زبان درازی اچھے اخلاق کا مظاہرہ نہیں۔
مخالفینِ حدیث سے شکوہ:
مخالفینِ حدیث کے پورے کیمپ سے ہمیں یہ شکوہ ہے کہ ان حضرات نے ہمیشہ خبط اور خلطِ مبحث کی کوشش کی۔ ان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، اجتہادات شرعاً حجت نہیں۔ وہ خدا کا پیغام (قرآن) تو دے سکتے ہیں لیکن اس کی وضاحت کا ان کو حق نہیں، اور اگر وہ اس پر عمل کریں تو وہ عمل امت کے لیے حجت نہیں۔ ان کی صوابدید ان کی ذات تک محدود ہے، ہم اس کی تعمیل کے مکلف نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں سند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہہ گفتگو فرماتے تھے، ان پر بھی شرعاً اسے قبول کرنا ضروری نہ تھا، لہٰذا اگر
|