Maktaba Wahhabi

323 - 676
علاوہ یہ حضرات احادیث کا پورا پورا احترام کرتے تھے۔ معتزلہ فروع میں شیعہ ہیں، بعض حنفی اور شافعی۔ وہ اپنے اپنے اماموں کی طرح فروع میں احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ اسی طرح خوارج میں آج بھی احادیث پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔ ’’الجامع الصحيح‘‘ کے نام سے حکومتِ مسقط کی طرف سے حدیث کی ایک کتاب خوارج میں موجود ہے، جسے وہ بڑی عقیدت سے پڑھتے ہیں۔ خوارج کے اس جزوی انکار کا تذکرہ سنت کی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ اعتزال کی سرپرستی عباسی حکومت نے کی۔ اس فتنہ نے قریباً دوسری صدی میں سر اٹھایا۔ اس لیے انکارِ حدیث کے متعلق یہ چور دروازہ قریباً دوسری صدی میں کھلا۔ ان کا زیادہ زور ان احادیث پر تھا جو صفاتِ باری تعالیٰ کے متعلق ان کے مزعومات کے خلاف تھیں۔ اور حدیث کے متعلق ان کے ذوق کی ’’سلامتی‘‘ کا یہ حال ہے کہ وہ متواتر احادیث کو بھی آحاد کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ نصوصِ قرآنیہ کی تاویل اس طرح کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے سن پائیں تو انہیں حیرت ہو۔ ولے تاویلِ شاں در حیرت انداخت خدا و جبریل و مصطفیٰ را [1] آحاد پر اشتباہ دوسری صدی کے شروع میں: یہ لوگ قرونِ خیر میں تو موجود نہ تھے۔ ان کی نشاندہی وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کو ان سے سابقہ پڑا۔ امام ابن حزمِ فرماتے ہیں: ’’و أيضا فإن جميع أهل الإسلام كانوا علي قبول خبر الواحد الثقة عن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم يجري علي ذلك كل فرقة في علمها كأهل السنة والخوارج والشيعة والقدرية حتيٰ حدث متكلموا المعتزلة بعد المائة من التاريخ فخالفوا الإجماع في ذلك‘‘ (الإحكام، ص: 1/114) ’’تمام مسلمان اگر راوی ثقہ ہو تو خبرِ واحد کو قبول کرتے تھے۔ اہلِ سنت، خارجی، شیعہ، قدریہ کا یہی خیال تھا۔ ہاں پہلی صدی کے بعد معتزلہ متکلمین کی جماعت پیدا ہوئی اور انہوں نے اس اجماعِ امت کی مخالفت کی۔‘‘
Flag Counter