سنت کی حیثیت:
قرآن عزیز کے الفاظ جس تواتر اور قطعیت کے ساتھ ہم تک پہنچے ہیں، سنت کو وہ مقام حاصل نہیں ہوا۔ سنت کا گو بہت بڑا ذخیرہ متواتر ہے، لیکن تمام مروی متون کو قطعیت اور تواتر کا یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ عبادات اور اعمال کا کثیر سرمایہ متواتر ہے۔ نماز، اس کے فرائض، سنن، اذکار، تنوع کے باوجود بحیثیت مجموعی متواتر ہیں، مگر معاملات، مغازی اور سیرت کا بہت سا ذخیرہ اخبار آحاد ہیں۔ علم الاسناد کے مباحث اور رجال میں جرح و تعدیل کی وجہ سے آحاد کے ذخیرہ میں وہ قطعیت نہیں رہتی۔ عبادات کے بھی بعض گوشے آحاد ہی کے مرہون منت ہیں، لیکن ان آحاد کا مقام بھی اخباری روایات سے کہیں زیادہ ارفع ہے۔ محدثین کی تنقید اور نقل، اخبار اور تاریخ سے مختلف اور بہت زیادہ موثق ہے، بلکہ علماء نے صحیح اخبارِ آحاد کے قبول اور ان کے عمل کے وجوب پر اتفاق فرمایا۔ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ متواتر کے برابر نہیں ہوتا، لیکن بذات خود وہ قابل استناد ہے۔
تعارض کے وقت ہو سکتا ہے کہیں آحاد کو نظرانداز کیا جائے، ورنہ عام حالات میں تمام فقہاء اور محدثین نے آحاد کو قبول فرمایا ہے۔ ان سے مسائل استنباط فرما کر آحاد کی ظنیت کو شکوک و اوہام کے مترادف نہیں گردانا، جیسا کہ اکثر منکرین حدیث سمجھتے یا کہتے ہیں۔ ائمہ اسلام نے رائے اور قیاس پر اخبارِ آحاد کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ اسی لیے اہل علم نے اجتماعی طور پر علم الحدیث کو تاریخ اور اخباری روایات سے بالکل الگ سمجھا ہے۔ ائمہ حدیث اور ائمہ تاریخ کا تعلق عام اور خاص کا سا ہے۔ یعنی ہر محدث اخباری ہوتا ہے، لیکن ہر اخباری محدث نہیں ہوتا۔
بعض اہل علم دونوں فنون کے جامع ہیں۔ حافظ ابن جریر، حافظ ابن کثیر، امام بخاری، ذہبی وغیرہ محدث بھی ہیں اور مؤرخ بھی، لیکن مؤرخین میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل ہیں، اس لیے وہ محدث نہیں ہو سکتے۔
میرا مقصد یہ ہے کہ چونکہ حدیث کے پورے ذخیرہ کا ثبوت اس طرح متواتر نہیں جس طرح قرآن عزیز کا متواتر ہے، اسی لیے ائمہ سنت نے احادیث کو ادلہ شرعیہ میں ثانوی حیثیت دی ہے، لیکن ثبوتِ مسائل کے لحاظ سے بعض وقت نصوصِ حدیث، قرآن سے بھی مقدم ہوتے ہیں۔ مسئلہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور امت اس پر عرصہ تک عمل کرتی رہتی ہے، مگر قرآن میں اس کی تائید
|