Maktaba Wahhabi

310 - 676
اندلسی اور امام داود ظاہری۔ یہ لوگ قیاس کو حجت شرعی تو بےشک نہیں جانتے، لیکن حدیث میں ان کا مقام ہم ایسے مدعیانِ علم و عقل سے کہیں بلند ہے۔ اس اندازِ تنقید سے احتیاط مناسب ہے جو مولانا اصلاحی نے اختیار فرمایا ہے۔ تین احادیث: جن احادیث کے متعلق مولانا نے فرمایا کہ عقلِ عام ان کو قبول کرنے سے ابا کرتی ہے۔ مناسب تو یہ تھا کہ ایسی مثالیں ذکر کرنے کی بجائے مولانا اپنے رفقاء سے مشورہ فرما کر ایک ایسا مجموعہ شائع کر دیتے جس میں وہ تمام احادیث جمع کر دی جاتیں جو مولانا کی طبیعت کو کھٹکتی ہیں یا عقلِ عام ان کو قبول کرنے سے ابا کرتی ہے، تاکہ کم عقل لوگ اندازہ کر سکتے کہ ایسی احادیث کی مقدار کتنی ہے اور کس کس عقلمند کی عقل کو یہ احادیث کھٹکتی ہیں؟ ممکن ہے کسی کی سمجھ میں کچھ آتا تو وہ آپ سے کچھ عرض کر سکتا۔ عقل اور حدیث میں جب بھی جنگ بپا کرنے کی کوشش کی گئی، اہلِ علم نے تطبیق کی صورت پیدا کر دی اور باہم صلح ہو گئی۔ ’’اعلام الموقعین‘‘، ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘ یا ’’مشکل الآثار‘‘ ایسی کتابیں ان شبہات کے پیش نظر لکھی گئیں اور اپنے وقت میں بہت حد تک کامیاب ثابت ہوئیں۔ مولانا نے جن احادیث کا مثال کے طور پر ذکر فرمایا ہے، ان کے متعلق مختصراً گزارش مناسب معلوم ہوتی ہے: (1) حدیثِ غرانیق باتفاقِ محدثین، اصولِ محدثین کے مطابق ساقط الاعتبار ہے اور جن الفاظ سے ائمہ حدیث نے اسے قابلِ استناد سمجھا ہے وہ نہ طبیعت کو کھٹکتی ہے نہ عقلِ عام اس سے ابا کرتی ہے۔ [1] (2) معاریضِ ابراہیم علیہ السلام کی روایت اکثر کتبِ حدیث میں مروی ہے، [2] اس کی سند اصولِ محدثین کے مطابق صحیح ہے۔ ائمہ حدیث میں سے فنی طور پر کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ا۔ تعجب ہے ائمہ حدیث میں سے یہ حدیث نہ کسی کی طبیعت کو کھٹکی نہ ان کی ’’عقلِ عام‘‘ نے اس سے ابا کیا ۔۔!
Flag Counter