ب۔ متقدمین فقہاءِ سنت سے بھی کسی نے اس پر اشتباہ کا اظہار نہیں کیا۔ غالباً امام رازی پہلے آدمی ہیں جن کے مزاج پر یہ حدیث گراں گزری اور انہوں نے دبے لفظوں میں اس کے انکار کی کوشش کی، لیکن امام نے اس چیز پر غور نہیں فرمایا کہ ان رواۃ سے اور بھی بہت سی روایات مروی ہیں۔ بنا بریں جس عیب کی بنا پر اسے رد کیا جائے گا، اس کا اثر باقی احادیث پر بھی پڑے گا۔ اس لیے یہ رد نتائج کے لحاظ سے آسان نہیں۔
ج۔ ابن قتیبہ (276ھ) نے ابراہیم بن سیار نظام جیسے معتزلی کے شبہات کا ذکر کیا ہے۔ نظام کہتے ہیں کہ اکابر صحابی (حذیفہ بن یمان) نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جھوٹ بولا۔ ابن قتیبہ فرماتے ہیں کہ تعریض توریہ ہے اور بعض اوقات جھوٹ کی بھی اجازت ہے۔ اس ضمن میں الزام کے طور پر انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کی ان معاریض کا ذکر فرمایا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظام ایسے غالی معتزلی کو بھی اس وقت حدیث پر اعتراض نہ تھا، نہ ہی یہ اس کی عقل کو کھٹکتی تھی۔ (تاویل مختلف الحدیث، ص: 42، 53)
د۔ معتزلہ اور متکلمین عقل کی پرستش اصول اور عقائد کے مسائل میں کرتے تھے اور صفاتِ باری کے مباحث میں سنت ان کے عقول پر گراں گزرتی تھی، مگر فروع میں ان کی عقلوں سے اس احساس کا دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسائل بھی ظنی ہیں۔ ان پر ظنی دلائل سے استدلال صحیح ہے۔ آج عقل پرست حضرات نہ اصول میں حدیث کو معاف فرماتے ہیں نہ فروع میں۔ عقول پر یہ ابا یا کھٹکا دراصل موسم کی بات ہے۔
ہ۔ فقہاءِ حدیث اور ائمہ اور شرّاحِ حدیث اس امر پر قریباً متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ نہیں بولا۔ قرآن و سنت اس پر صراحتاً شاہد ہیں کہ یہ جو کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، تعریض اور توریہ کے طور پر فرمایا اور یہ طریقہ گفتگو ادبیات کی جان ہے۔ دینی، سیاسی، کاروباری طبقے سب اس کا کھلے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے جس اختصار اور سنجیدگی سے اس کا تذکرہ فرمایا ہے، اہلِ تحقیق کے لیے اس میں تسکین کا سامان موجود ہے:
’’ فإن قيل: كيف سماها إبراهيم كذبات، وهي تورية، وتعريض صحيح؟ وقد فتح اللّٰه الكريم بالجواب عنه، فنقول: الكلام له
|