کہ اس مادی دنیا میں اس کا ایک قانون ہے اور ایک سنت مستمرہ، اسی کے مطابق سب کام ہو رہے ہیں اور اس کا انتظام انسانی ہاتھوں ہی سے ہوتا ہے، تو کس قدر تعجب ہے کہ جب یہی عام اسباب حدیث کی حفاظت کے لیے استعمال ہوں، محدثین اسے لکھیں، ضبط کریں، تدوین فرمائیں، احادیث کا لغت لکھیں، شروح لکھیں، رجال کا انضباط کریں، علوم حدیث کی ترویج فرمائیں اور آپ منہ بسور کر فرمائیں کہ محدثین کی مساعی تو ٹھیک، مگر ہیں تو سب انسانی کوششیں!!
قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ:
یہ صحیح ہے کہ قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے لی ہے۔ ﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾ (الحجر: 9) کے مطابق ’’ذكر‘‘ کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن مجید یقیناً ذکر ہے، لیکن یہ کہاں فرمایا گیا ہے کہ قرآن مجید کے سوا ذکر کا مصداق اور کوئی نہیں؟ تمام وحی ذکر میں شامل ہے۔ پوری شریعت کا ذکر ہے اور اس کی حفاظت خدا تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ قرآن کا محافظ خدا ہے، حدیث کا محافظ خدا ہے، اسی طرح شریعت اور دین کا محافظ بھی خدا ہی ہے اور یہ حفاظت سنت الٰہی کے مطابق انسانوں ہی کی معرفت ہوتی رہی:
﴿ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰه تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰه تَحْوِيلًا﴾ (الفاطر: 43)
جب دین کا مدار ان دو چیزوں پر ہے، تو ان دونوں کی حفاظت بھی خدا تعالیٰ ہی فرمائے گا۔
’’ذكر‘‘ سنت کو بھی شامل ہے:
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لا خلاف بين أحد من أهل اللغة والشريعة في أن كل وحي نزل من عنداللّٰه تعاليٰ فهو ذكر منزل، فالوحي كله محفوظ بحفظ اللّٰه تعاليٰ له بيقين‘‘ (الإحكام: 1/121)
’’اہل لغت اور شریعت اس امر پر متفق ہیں کہ وحی کی تمام اقسام ذکر ہیں اور تمام وحی کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے لیا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
|