’’ليس الفقه بكثرة المسائل، ولكن الفقه يؤتيه اللّٰه من يشاء من خلقه‘‘ (جامع: 2/45)
یعنی فقہ زیادہ مسائل جاننے کا نام نہیں، بلکہ فقہ اللہ کی عطا ہے، جسے وہ چاہے دیدے۔
ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جامع بیان العلم کے (1/23) سے (1/49) تک فقہ اور علم کے متعلق بے حد مفید مواد جمع فرمایا ہے۔ اہل علم کو اسے غور سے پڑھنا چاہیے۔ فقہ، علم، حکمت اور رائے کا مفہوم سمجھ میں آ جائے گا اور کچھ تعجب نہیں کہ فرح بالعلم کے جراثیم دماغ سے نکل جائیں!
’’الفقه معرفة النفس مالها وما عليها‘‘1ھ (فقه أكبر، ص: 10)
یعنی نفس کی ذمہ داریوں کے سمجھنے کا نام فقہ ہے۔
یونانی علوم کی اشاعت کے بعد جب متکلمین نے مناظرات کا آغاز کیا اور تاویلات کی گرم بازاری ہوئی، تو علم الکلام کو بھی ’’فقہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا۔ ’’فقہ اکبر‘‘ جو حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے، اسی دور کی کتاب ہے، اسی لیے اس کا یہ نام رکھا گیا۔
فقه الاجتهاد:
ائمہ اجتہاد رحمہم اللہ کے اجتہادات جب رائج ہوئے، تو ان کے اتباع نے ان اصولوں کی روشنی میں مزید فروع کی تخریج فرمائی اور یہ اثرات اساتذہ سے تلامذہ تک اپنی طبعی افتاد سے پہنچے اور ائمہ اربعہ کے ساتھ اور بہت سے ائمہ اجتہاد کی فقہیں بھی مروج ہوئیں اور جن پر عمل ہوتا رہا، ان کا نام بھی فقہ قرار پایا اور تلامذہ اساتذہ سے اسے وراثتاً لیتے رہے۔ بتدریج اس تعلق نے جمود کی صورت اختیار کی، تو اس فقہ کی دو صورتیں ہو گئیں۔ فقہ المجتہدین یعنی ائمہ اجتہاد کی مجتہدانہ مساعی جو کتاب و سنت سے براہ راست پیش آمدہ مسائل کا استنباط فرماتے تھے۔ ادلہ شرعیہ کی روشنی میں ان پر غور ہوتا اور وقت کے مسائل کو حل فرمایا جاتا۔ اس میں باہم اختلاف بھی ہوتا، غلطی کا امکان بھی ہوتا، اساتذہ، تلامذہ بحث و نظر کے بعد کسی ایک دوسرے کی رائے کو قبول فرماتے، کبھی اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے، لیکن حسن ظن اور محبت کے تعلق بدستور قائم رہتے۔ اس مجتہدانہ فقہ کی عمر ائمہ اجتہاد کے بعد بڑی مختصر رہی، جلدی اس پر جمود طاری ہو گیا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ رحمہم اللہ نے چوتھی صدی ہجری کے آخر تک اس کا اندازہ فرمایا ہے۔ اس کے بعد جمود کا دور آ گیا اور تحقیق
|