Maktaba Wahhabi

249 - 676
اور اس مفرط محبت کے باوجود جو انہیں حنفیت سے ہے، امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق جچی تلی رائے قائم فرمائی ہے: ’’إن البخاري عندي سلك مسلك الاجتهاد، ولم يقلد أحدا في كتابه، بل حكم بما حكم به فهمه‘‘ (فيض الباري: 1/335) اسی طرح (ج:1، ص: 325) میں شاہ صاحب نے صراحت فرمائی ہے اور یہ صراحت اس سے پہلے سخاوی رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے، بلکہ شیخ الاسلام نے تو انہیں مجتہد مطلق فرمایا ہے۔ [1] اجتہاد کی شروط: ملکہ اجتہاد میں کسب کے باوجود موہبت الٰہی کو بہت حد تک دخل ہے، مگر فقہاء رحمہم اللہ نے اجتہاد کے متعلق جن اصطلاحی اور فنی قیود کا تذکرہ اصول فقہ کی مستندات میں فرمایا ہے، اس نے تو اجتہاد کو بے حد ہیبت ناک بنا دیا ہے۔ ممکن ہے وقتی مصالح کا تقاضا کچھ اسی قسم کا ہو۔ ائمہ اربعہ اور حضرت امام بخاری اور اکثر ائمہ اجتہاد ان صنفی فنون کی تصنیف سے بہت پہلے اس مقام پر فائز ہو چکے تھے۔ یہ پیمانے بہت بعد میں ایجاد ہوئے اور ان فنون پر لکھنے والے قریباً اس نعمت سے محروم تھے۔ ان کی نگاہ میں مقامِ اجتہاد قریب قریب اتنا ہی مشکل ہے، جیسے مقام نبوت تک رسائی، حالانکہ نبوت محض موہبت ہے اور اجتہاد کافی حد تک کسبی، اس لیے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ اور بعض دوسرے اہل علم جن پر متاخرین کی مصنوعی قیود کا اثر ہے، مجمل طور پر تو حضرت امام رحمہ اللہ کو مجتہد فرما گئے، مگر مجتہد مطلق کی صراحت صرف امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمائی، کیونکہ وہ متاخرین کی مصنوعی اصطلاحات سے مرعوب ہیں نہ متاثر۔ لسعة علمه و غزارة فهمه رحمه اللّٰه رحمة واسعة تملأ بها السموات والأرض بہرحال جب تک دنیا میں صحیح بخاری موجود ہے، امام رحمہ اللہ کے مسلک کے تعین میں کوئی مشکل نہیں۔ وہ مروجہ مذاہب سے قطعی متاثر نہیں۔ حضرت سید انور شاہ صاحب رحمہ اللہ کو امام سے شکوہ ہے۔ فرماتے ہیں:
Flag Counter