Maktaba Wahhabi

82 - 676
کہ سنت بصراحت قرآن عزیز میں موجود ہو۔ شوکانی فرماتے ہیں: ’’اعلم أنه قد اتفق من يعتد به من أهل العلم عليٰ أن السنة المطهرة مستقلة بتشريع الأحكام، وإنها كالقرآن في تحليل الحلال و تحريم الحرام‘‘ (إرشاد الفحول، ص: 31) ’’سنت احکام کے اثبات اور تشریح میں مستقل اصل ہے، اور حلال و حرام کے احکام بالاستقلال سنت میں موجود ہیں۔‘‘ سوچیے کہ اگر ایک حکم قرآن اور سنت میں بصراحت موجود ہو اور آپ اسے مان لیں تو آپ نے سنت پر کیا احسان کیا؟ وہ تو قرآن ہے، اس کا انکار کیسے ممکن تھا؟ ہاں یہ درست ہے کہ اگر کوئی حدیث یا سنت قرآن کے صراحتاً خلاف ہو تو وہاں قرآن ہی کی صراحت پر عمل ہو گا۔ گو یہ فی الواقع ناممکن ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی مخالفت کریں۔ موضوع بحث: ہمارے پیش نظر موضوع میں سنت اور حدیث مترادف ہیں اور یہ شرعاً دونوں حجت ہیں، بلکہ جن احادیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہ بھی دراصل افعال ہی ہیں، کیونکہ قول زبان کا فعل ہے۔ اسی طرح تقریر اور اجتہاد، یہ بھی دراصل فعل ہی ہیں اور سنت ان سب کو شامل ہے، اور تکمیلِ دین کے لیے ان سب پر یقین اور ایمان لانا ضروری ہے، ورنہ قرآن اور متواتر سنن اپنی کثرت کے باوجود زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی نہیں ہو سکتے۔ مسلم الثبوت میں بھی سنت کی تعریف اسی طرح کی گئی ہے: ’’ما صدر عن الرسول غير القرآن من قول و فعل و تقرير‘‘ (شرح مسلم الثبوت، بحر العلوم، ص: 386) ائمہ سنت کے نزدیک جو سنت حجت شرعیہ شمار کی گئی ہے اور جسے احکام کو ماخذ سمجھا گیا، وہ ضروری ہے کہ قرآن کے علاوہ ہو۔ اس کی تصریحات قرآن عزیز کی تصریحات سے مختلف ہوں گی، لیکن مخالف نہیں ہوں گی۔
Flag Counter