کیا گیا ہے۔ راسخ عادات اور مستمر اعمال پر بھی ’’سنت‘‘ کا اطلاق متعارف ہے۔ اسی محاورہ کے مطابق ’’طریقہ‘‘ اور ’’سیرت‘‘ بھی اس مفہوم میں شامل ہے۔ زبان کے لحاظ سے اچھی اور بری عادات دونوں پر سنت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ حدیث:
((مَنْ سَنَّ سُنَّةٌ حَسَنَةٌ فَلَهٗ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَيّئَةً فَلَهٗ أَجْرُهَا وَ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا)) [1]
میں سنت کا لفظ اسی لغوی لحاظ سے فرمایا ہے، ورنہ سنت نبوی کی صفت ’’سَيّئَةً‘‘ کیسے ہو سکتی ہے؟ ’’فَإِنَّ السُّنَّةَ خَيْرٌ كُلُّهَا‘‘[2]بعض احادیث میں بعض اعمال کے متعلق بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ’’نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هٰذِهٖ‘‘ [3] کے الفاظ ارشاد فرمائے ہیں جس سے مراد بدعت لغوی ہے، ورنہ مصطلحہ بدعت کے متعلق جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ((كُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ)) [4]فرمائیں تو ضلالت کو ’’ضلالت حسنہ‘‘ کون کہہ سکتا ہے؟
شارع کی زبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل، خاموشی، اجتہاد نبوی، سب سنت میں داخل ہیں۔ معتزلہ نے انبیاء علیہم السلام کے متعلق اجتہاد و استنباط کا انکار کیا ہے، لیکن ائمہ سنت انبیاء علیہم السلام کے لیے اجتہاد کو جائز سمجھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اصلاح نہ فرمائی جائے تو یہ بھی سنت میں شامل ہے۔
اصول فقہ کے متون میں بعض علماء نے فرمایا ہے کہ سنت کا لفظ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال پر بولا ہے اور حدیث کا لفظ اقوال پر، لیکن ادلہ شرعیہ کے تذکرہ میں وہ حدیث اور سنت کو مترادف اور ہم معنی سمجھتے ہیں۔ سنت کا لفظ جب اضافت سے استعمال ہو تو سنت نبوی سے مراد احادیث نبویہ ہی لی جاتی ہیں۔
سنت شرعی اصطلاح کے مطابق شرعی اور دینی احکام کے لیے ماخذ ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں
|